وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا
اور وہ تجھ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ میں تمھیں اس کا کچھ ذکر ضرور پڑھ کر سناؤں گا۔
فہم القرآن: (آیت 83 سے 84) ربط کلام : الکہف کے تعارف میں عرض کیا ہے کہ یہ سورۃ اہل مکہ کے سوالات کے جواب میں نازل ہوئی تھی۔ اہل مکہ نے رسول معظم (ﷺ) کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا۔ ان کی دن رات کوشش تھی کہ کسی ایک بات میں سہی اس نبی (ﷺ) کو لوگوں کی نظروں میں جھوٹا یا کم از کم لاجواب کردیا جائے۔ اس کے لیے انھوں نے مدینہ میں یہودیوں کے پاس وفد بھیجا۔ یہودیوں نے اس سورۃ میں ذکردوسرے سوالات کے ساتھ ایک سوال یہ بھی بتلایا کہ واپس جا کر محمد سے یہ بھی پوچھنا کہ ” ذوالقرنین“ کون تھا اور اس نے مشرق سے لے کر مغرب تک جو فتوحات حاصل کیں ان کی تفصیلات کیا ہیں۔ اہل مکہ نے واپس آکر آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں بھی استفسار کیا۔ جس کا جواب دینے سے پہلے یہ ارشاد ہوا ہے کہ یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں لہٰذا ہم آپ کو ذوالقرنین کے بارے میں کچھ باتیں بتلاتے ہیں۔ یاد رہے کہ قرآن مجید تاریخ، جغرافیہ اور دنیوی علوم و فنون کی کتاب نہیں ہے۔ تاریخ، جغرافیہ اور دنیوی علوم و فنون کے بارے میں قرآن مجید اتنا ہی اشارہ اور بات کرتا ہے جس کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے انسان کی ہدایت اور فائدے کے ساتھ ہوتا ہے اس سے آگے قرآن کچھ بھی ذکر نہیں کرتا۔ اس لیے ذوالقرنین کے بارے میں جواب دینے سے پہلے ﴿مِنْہُ ذِکْرًا﴾ کے لفظ استعمال کرکے واضح کردیا گیا ہے۔ کہ ہم اس کے واقعات میں سے کچھ واقعات کا ذکر آپ کے سامنے کریں گے۔ لفظ ذکر کا ایک معنٰی نصیحت بھی ہے۔ اس لیے یہ حقیقت بھی بتلا دی گئی کہ ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرنے والوں کے لیے اس کے کردار اور واقعات میں ایک عبرت اور نصیحت ہے بشرطیکہ یہ اسے پانے کی کوشش کریں۔ ذوالقرنین وہ شخص تھا جسے اللہ تعالیٰ نے زمین پر بہت سے اختیارات دیے تھے اسے وسیع و عریض مملکت اور ہر قسم کے وسائل سے مالا مال کیا تھا۔ ذوالقرنین کون تھا ؟ یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ” ذوالقرنین“ جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے کون تھا۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا، لیکن قرآن میں اس کی جو صفات وخصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس (خسردیا سائرس) کی طرف ہے اور یہ نسبتاً زیادہ قرین قیاس ہے مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں : 1۔ اس کا لقب ذوالقرنین ( لغوی معنی ( دو سینگوں والا) کم از کم یہودیوں میں جن کے اشارے سے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی (ﷺ) سے سوال کیا تھا، ضرور معروف ہونا چاہیے۔ اس لیے لا محالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ ” دو سینگوں والے“ کی حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے۔ 2۔ وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی وسیع ہوئی ہوں، ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گزری ہیں اور لامحالہ انہی میں سے کسی ایک میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تلاش کرنی ہوں گی۔ 3۔ اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے اپنی مملکت کو یاجوج وماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی درے پر ایک مستحکم دیوار بنائی ہو۔ اس علامت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ یاجوج وماجوج سے مراد کونسی قومیں ہیں اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے علاقے سے متصل کونسی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس نے بنائی ہے۔ 4۔ اس میں مذکورۂ بالا خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو، کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے۔ ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خورس پر چسپاں کی جا سکتی ہے کیونکہ بائیبل کے صحیفہ دانی ایل میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک مینڈھے کی شکل میں دیکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے، یہودیوں میں اس ” دو سینگوں والے“ کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور بنی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی۔ دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے مگر پوری طرح نہیں اس کی فتوحات بلاشبہ مغرب میں ایشیائے کوچک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں باختر ( بلخ) تک وسیع ہوئی مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے۔ حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں کا کیشیا ( قفقاز) تک وسیع تھی۔ تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یا جوج ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تا تاری منگولی، ھن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں، نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور داریال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ خورس ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے۔ آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جا سکتی ہے تو وہ خورس ہی ہے کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائیبل کی کتاب عزرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس ہی کے اندر ” ذوالقرنین“ کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں لیکن تعین کے ساتھ اسے ذوالقرنین قرار دے دینے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے تاہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا خورس ہے۔ تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا عروج 549ق م کے قریب زمانے میں شروع ہوا۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا ( ایشیائے کوچک کی) سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد 539ق م میں بابل کو بھی فتح کرلیا جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستہ میں مزاحم نہیں رہی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور صُغْد ( موجودہ ترکستان) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہوگیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز (کاکیشیا) اور خوارزم تک پھیل گئی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔ (بحوالہ : تفہیم القرآن) مسائل: 1۔ ذوالقرنین ایک عظیم حکمران تھا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے اسے وسیع مملکت اور ہر قسم کے وسائل عنایت فرمائے تھے۔ 3۔ ذوالقرنین کے کردار اور واقعات میں معاشرے کے بڑے لوگوں بالخصوص حکمرانوں کے لیے بڑی رہنمائی ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہی اقتدار اور وسائل دینے والا ہے : 1۔ ہم نے اسے (ذوالقرنین) زمین میں اقتدار بخشا اور ہر طرح کا ساز و سامان بھی دیا۔ (الکہف :84) 2۔ کہہ دیجیے اللہ ہی بادشاہوں کا بادشاہ ہے جسے چاہتا ہے اقتدار سے نوازتا ہے جس سے چاہتا چھین لیتا ہے (آل عمران :26) 3۔ ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور ملک عظیم عطا کیا۔ (النساء :54) 4۔ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے اس کی اولاد نہیں اور اس کی بادشاہت میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ (الفرقان :2) 5۔ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران :189)