سورة الكهف - آیت 80

وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور رہا لڑکا تو اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے تو ہم ڈرے کہ وہ ان دونوں کو سرکشی اور کفر میں پھنسا دے گا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 80 سے 81) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، بچے کو قتل کرنے کی حکمت۔ حضرت خضر (علیہ السلام) بچے کو قتل کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ رہا بچے کو قتل کرنے کا معاملہ۔ تو میں نے اس بچے کو اس لیے قتل کیا کہ اس کے ماں باپ مومن اور نہایت ہی اچھے لوگ ہیں۔ ہم نے خطرہ جانا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر نہ صرف کفر و شرک کرے گا بلکہ اپنی سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے اپنے ماں باپ کو بھی کفر اور نافرمانی پر مجبور کرے گا اس لیے میں نے اسے قتل کردیا کیونکہ ہم نے چاہا ان کا رب اس کے بدلے میں اس سے نیک، رحمدل اور شریف النفس بیٹا عطا فرمائے۔ حضرت خضر کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض امور کی حکمت کا علم دے کر کچھ ایسے کام کرنے کا حکم دے رکھا تھا جو ظاہری طور پر شریعت کے ضابطوں کے خلاف تھے۔ اسی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بچے کے قتل پر چپ نہ رہ سکے کیونکہ تمام شریعتوں میں بچہ ہو یا بڑا کسی کو ناحق قتل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس بچے کو عین اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اجازت کے مطابق قتل کیا تھا۔ اس لیے انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : ہم نے چاہا اس کے ماں باپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک اور نرم خو بیٹا عنایت کیا جائے۔ کسی کو اولاد عنایت کرنا خالصتاً اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کام میں اس کا کوئی شریک اور سہیم نہیں ہوتا۔ اس لیے حضرت خضر (علیہ السلام) نے بیٹے کی تخلیق کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے۔ جہاں تک اسے جان سے مار دینے کا تعلق ہے اس کے بارے میں ” ہم نے چاہا“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کیونکہ کسی کو قتل کرنا سنگین جرم ہے۔ اس لیے حضرت خضر یہ کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یقین دلانے اور اس کام کی پوری طرح حکمت منکشف کرنے کے لیے ” ہم“ کی ضمیر استعمال فرمائی جس میں اشارہ ہے کہ میں نے یہ کام اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور اس کے حکم سے کیے ہیں۔ میں شامل کیا ہے۔ اس کام میں یہ حکمت بھی بتلا دی کہ نیک اولاد کے اوصاف میں یہ وصف بھی ہونا چاہیے کہ وہ کردار کے لحاظ سے پاکیزہ اور روّیے کے اعتبار سے اپنے ماں باپ کے ساتھ انتہائی شفقت کرنے والی ہو۔ والدین کو حکم : ﴿وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَ اِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا﴾ [ بنی اسرائیل :31] ” اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں اور تمھیں رزق دیتے ہیں۔ بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔“ ( اولاد نافرمان ہونے کی صورت میں بھی ماں باپ کو اسے قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ) (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ رَسُول اللّٰہِ () أَیُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللّٰہِ أَکْبَرُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَۃَ أَنْ یَطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَۃِ جَارِکَ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قولہ الذین لایدعون مع اللہ ....] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) سے سوال کیا گیا کہ کونسا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد ؟ آپ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔“ مسائل: 1۔ بری اولاد بسا اوقات ماں باپ کو بھی برے کاموں پر مجبور کرتی ہے۔ 2۔ اولاد کو اپنے ماں باپ کے ساتھ شفقت اور مہربانی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: ماں باپ کے لیے اولاد آزمائش ہے : 1۔ یقیناً تمھارے مال اور اولاد آزمائش ہیں اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (الانفال :28) 2۔ اے ایمان والو! تمھارے مال اور اولاد تمھیں ہلاکت میں مبتلا نہ کردیں۔ (المنافقون :9) 3۔ یقیناً تمھاری بیویوں اور اولاد میں سے تمھارے دشمن ہیں ان سے بچ کر رہو۔ (التغابن :14) 4۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی خوبصورتی ہیں نیک اعمال باقی رہنے والے ہیں اور ان کا ثواب اللہ کے بہترین ہے۔ (الکہف :46)