قَالَ هَٰذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ۚ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا
کہا یہ میرے درمیان اور تیرے درمیان جدائی ہے، عنقریب میں تجھے اس کی اصل حقیقت بتاؤں گا جس پر تو صبر نہیں کرسکا۔
فہم القرآن: (آیت 78 سے 79) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ہاں جو کام میں نے سفر کے دوران کیے ہیں۔ ان کے بارے میں عرض کیے دیتا ہوں تاکہ آپ کو ان کی حکمت کا علم ہو سکے جن کے بارے میں آپ صبر نہ کرسکے۔ کشتی کا تختہ میں نے اس لیے توڑا تھا کہ ظالم بادشاہ، ملاحوں کی کشتیاں جبرًا پکڑ رہا تھا۔ میں نے کشتی کو عیب دار کیا۔ تاکہ بادشاہ کے کارندے کشتی کو غیر معیاری سمجھ کر چھوڑ دیں اس طرح ان غریبوں کی مزدوری چلتی رہے۔ ثابت ہوتا ہے کہ ظالموں، حکمرانوں کا پرانا وطیرہ ہے کہ وہ ذاتی مفاد یا کسی اجتماعی مہم کے لیے بلامعاوضہ اور بلاتمیز لوگوں کے مال پر تصرف کرتے ہیں۔ جو ہرگز جائز نہیں البتہ ہنگامی حالات اور ملکی مفاد میں کچھ وقت کے لیے پبلک پراپرٹی سے فائدہ اٹھانا ناگزیر ہو تو رعایا کو اعتماد میں لے کر ایسا کرنا جائز ہے۔ اس کے باوجود غریبوں اور مجبور لوگوں کا خیال رکھنا لازم ہے۔ ورنہ شرعاً اور اخلاقاً حکومت کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کی ذاتی جائیداد پر قبضہ کرے اس کے لیے سیدنا عمر فاروق (رض) اور حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کی مثال حکمران طبقہ کے سامنے ہونی چاہیے۔ جس سے اشتراکی اور اسلامی نظام میں فرق کا پتہ چلتا ہے۔ آنحضرت (ﷺ) کے عہد میں جو مسجد نبوی کی عمارت تیار کی گئی تھی وہ اس عہد کے لیے کافی تھی۔ لیکن مدینہ منورہ کی آبادی روزبروز بڑھتی جا رہی تھی۔ اس وجہ سے نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔17 ھ میں حضرت عمر (رض) نے مسجد کو وسیع کرنا چاہا جس کے لیے گردوپیش کے مکانات قیمت دے کر خرید لیے، لیکن حضرت عباس (رض) نے اپنا مکان بیچنے سے انکار کیا۔ حضرت عمر (رض) نے کافی معاوضہ دینے کی پیشکش کی لیکن حضرت عباس (رض) کسی طرح راضی نہ ہوئے تھے۔ آخر مقدمہ ابی بن کعب (رض) کے پاس آیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ حضرت عمر (رض) کو جبراً مکان خریدنے کا کوئی حق نہیں۔ حضرت عباس (رض) نے فرمایا کہ اب میں بلا قیمت عامۃ المسلمین کے لیے دیتا ہوں۔ اس طرح ازواج مطہرات کے مکانات کو چھوڑ کر باقی جس قدر عمارتیں تھیں انہیں گرا کر مسجد کو وسعت دی گئی۔ پہلے طول 10 گز تھا انہوں نے 140 گز کردیا۔ اسی طرح عرض میں بھی 20 گز کا اضافہ ہوا لیکن عمارت میں کچھ تکلف نہیں کیا گیا، آنحضرت (ﷺ) کے عہد میں جس طرح ستون وغیرہ لکڑی کے تھے، اب بھی لکڑی کے رہے، حضرت عمر (رض) نے مسجد کی تجدید کے ساتھ ایک کونے میں ایک چبوترہ بنوایا اور لوگوں سے کہا کہ جس نے بات چیت کرناہو اس کے لیے یہ جگہ ہے۔ (الفاروق : مصنف شبلی نعمانی (رض) مسائل: 1۔ بہتر ہے کہ ناواقف ہمسفر کو راستے کی مشکلات سے آگاہ کردیا جائے۔ 2۔ غیر شرعی کام دیکھ کر بڑے سے بڑے بزرگ کو روکنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ 3۔ کسی کام میں شراکت قائم رکھنا مشکل ہو تو ساتھی کو آگاہ کردینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: صبر کے معانی : 1۔ خضر نے کہا اب میرا اور تمھارا ساتھ ختم ہوا میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔ (الکہف :78) 2۔ آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ مطمئن رکھیے جو صبح و شام اپنے پروردگار کو یاد کرتے ہیں۔ (الکہف :28) 3۔ سردار مکہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کی پرستش پر قائم رہو۔ (ص :6) 4۔ جہنمی کس طرح جہنم کی آگ کو برداشت کریں گے۔ (البقرۃ:175) 5۔ تم کفار کی باتوں کو ہمت کے ساتھ برداشت کرو۔ (المعارج :5) 6۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ:153)