يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا چیز خرچ کریں؟ کہہ دے تم خیر میں سے جو بھی خرچ کرو سو وہ ماں باپ اور زیادہ قرابت والوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے اور تم نیکی میں سے جو کچھ بھی کرو گے تو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والاہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : اس سوال کا جواب یہاں اس لیے دیا گیا ہے کہ لوگو! مشکلات اور مصائب میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ کیونکہ صدقہ رد بلا ہوتا ہے۔ اللہ کی رضا کے طالب عسر و یسر میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ مومنوں کی صفت ہے۔ یہاں پے در پے چھ سوالات کے جواب دیئے جارہے ہیں۔ جب کہ دوسوالوں کے جواب دعا اور چاند کے متعلق دیئے جاچکے ہیں۔ قرآن مجیدنے زیادہ سوالات کرنے کی حوصلہ شکنی کی ہے لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ ضرورت کے تحت بھی سوال نہ کیا جائے۔ بعض سوال اس قدر ناگزیرہوتے ہیں جن کے بغیر سامعین حقیقت حال کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتے۔ لہٰذا جائز سوال کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کا تفصیل کے ساتھ جواب دیتے ہوئے ضمنی وضاحتیں بھی کردی گئیں۔ چنانچہ آیت 215سے 223تک یہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ کیا خرچ کریں؟ فرمایا : اپنے مال سے خرچ کرو۔ یہاں مال کو خیر قرار دیتے ہوئے فرمایا تم جو بھی کروگے اللہ تعالیٰ اسے اچھی طرح جانتا ہے پھر اس کی مدّات کی تفصیل پیش فرمائی کہ سب سے پہلے والدین کی خدمت، دلجوئی اور ان کے ساتھ احسان سے پیش آیاجائے۔ کیونکہ ہر والدین حسب استطاعت پہلے اپنی اولاد پر خرچ کرتے ہیں لہٰذا جب اولاد اس قابل ہو تو انہیں بھی والدین کو اولیّت دینی چاہیے۔ ان کے بعد مستحق رشتہ داروں کی باری آتی ہے۔ پھر معاشرہ کے نہایت ہی پسماندہ طبقہ یتیموں کا حق ہے اور ان کے بعد مساکین اور غریب الوطن لوگوں کا استحقاق بنتا ہے۔ رسول کریم (ﷺ) سے اس ضمن میں سوال ہوا تو ارشاد فرمایا : والدین میں ماں کی خدمت کیجیے ! تین دفعہ یہی ارشاد فرمانے کے بعد والد کا نام لیا اور پھر فرمایا کہ (ثم الاقرب فالأقرب) پھر جو ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الأدب، باب فی بر الوالدین] یہ ترتیب ایسی ہے جس کے لیے بڑے بڑے رجسٹروں اور دفاتر کی ضرورت نہیں۔ شہری ہو یا دیہاتی ہر کوئی اپنے رشتہ داروں کو جانتا ہے۔ کون ان میں ضرورت مند اور کون سا شخص صدقات سے مستغنی ہے؟ پھر دنیا میں شاید ہی کوئی بد قسمت ہوگا جس کا کوئی بھی قریبی نہ ہو۔ خدانخواستہ اگر کوئی بالکل لاوارث ہے تو بیت المال اس کی کفالت کرے گا۔ یہ ایسا فطری اور جانا پہچانا نظم ہے کہ جس سے کوئی بھی غریب اور مسکین محروم نہیں رہ سکتا لیکن افسوس! مسلمانوں نے جس طرح شریعت کے دوسرے احکامات کا حلیہ بگاڑ ا ہے۔ ایسے ہی اس فطری فہرست اور نظم کو توڑ کر گدا گری میں اضافہ کیا ہے۔ جس سے گداگر تو کئی جگہوں سے تعاون حاصل کرلیتے ہیں لیکن سفید پوش حضرات غربت کی چکّی میں اسی طرح پستے رہتے ہیں۔ اگر مسلمان مالدار منہ ملاحظوں اور خوشامدوں سے پرہیز کرتے تو نظم قائم رہنے کے ساتھ باہمی محبتیں بھی برقرار رہتیں۔ یہاں صدقہ سے مراد فرضی صدقات نہیں۔ کیونکہ زکوٰۃ والدین پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یاد رہے کہ عام صدقات انفرادی طور پر خرچ کرنا بہتر ہیں اور زکوٰۃ اجتماعی طور پر صرف کرنا افضل ہے۔ ابن السبیل : جہاں تک مسافر کے ساتھ تعاون کا تعلق ہے۔ آپ نے مسافر کی پریشانی کو اس قدر اہمیت دی اور ارشاد فرمایا : (لِلسَّائِلِ حَقٌّ وَإِنْ جَاءَ عَلٰی فَرَسٍ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الزکوٰۃ، باب حق السائل ] ” اگر سائل گھوڑے پر سوار ہو کر کسی کے ہاں آکر سوال کرے تو اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔“ نامعلوم وہ کس حادثے کا شکار ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بظاہر خوشحال دکھائی دیتے ہوئے بھی سوال کرنے پر مجبور ہے۔ مسائل : 1۔ رزق خیر ہے۔ 2۔ تعاون کے پہلے مستحق والدین ہیں۔ 3۔ والدین کے بعد رشتہ دار‘ یتیم‘ مسکین اور ضرورت مند مسافر۔ 4۔ صدقہ کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہر نیکی کو جاننے والا ہے۔ تفسیربالقرآن : انفاق فی سبیل اللہ کانظام : 1۔ وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کس طرح مال خرچ کریں؟ کہہ دو جو مال خرچ کرنا چاہووہ والدین، قریبی رشتہ داروں یتیم، مساکین اور مسافروں پر خرچ کرو۔ (البقرۃ:215) 2۔ صدقات مفلسوں، محتاجوں، عاملین، تالیف قلب، غلاموں کی آزادی، قرض داروں، اللہ کی راہ اور مسافروں کے لیے ہیں۔ (التوبۃ:60) 3۔ اپنے صدقات ان فقرأ پر خرچ کرو جو اللہ کی راہ میں محبوس کردیے گئے ہیں۔ (البقرہ :273)