قَالَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا
اس نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو تو مجھے ضرور صبر کرنے والا پائے گا اور میں تیرے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کروں گا۔
فہم القرآن: (آیت 69 سے 73) ربط کلام : خضر (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ ان شاء اللہ آپ مجھے حوصلہ کرنے والا پائیں گے میں آپ کی مخالفت نہیں کروں گا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو میرے کسی کام کے بارے میں سوال نہ کرنایہاں تک کہ میں خود اس کی وضاحت کروں۔ یہ بات طے کرنے کے بعد دونوں چل پڑے ا وردریاعبور کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہوئے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے کشتی کا ایک تختہ توڑدیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چونک اٹھے اور فرمایا کیا آپ کشتی والوں کو ڈبو نا چاہتے ہیں؟ آپ نے عجب کام کر دکھایا ہے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا میں نے آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ میرے کاموں پر صبر نہیں کر پائیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں بھول گیا اس لیے میری گرفت نہ کیجیے۔ اسکے بعد دونوں نے سفر جاری رکھاراستہ میں ایک بچے کو کھیلتے ہوئے پایا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے آگے بڑھ کر بچے کا گلہ اس زور سے دبایا کہ بچے کی چیخ نکلی اور اس کے ساتھ ہی اس کی روح پرواز کرگئی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے احتجاج کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے ایک بے گناہ بچے کو ناحق قتل کردیا ہے یہ تو آپ نے بہت ہی برا کام کیا ہے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ خلاف شرع بات پر ٹوکنا چاہیے : (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَّسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ: مَنْ رَّاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ‘ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ) [ رواہ مسلم : باب بَیَانِ کَوْنِ النَّہْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ مِنَ الإِیمَانِِ ] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) نبی محترم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا‘ تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ سے روکے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے‘ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر کم از کم دل سے نفرت کرے۔ یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔“ صبر اور شکر کا اجر و ثواب : (عَنْ صُھَیْبٍ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) عَجَبًا لِاَمْرِ الْمُؤْمِنِ اِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ لَہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَالِکَ لِاَحَدٍ اِلَّا لِلْمُؤْمِنِ اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَفَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَاِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَا نَ خَیْرًا لَّہُ)[ رواہ مسلم : باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہُ کُلُّہُ خَیْرٌ] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ ایمان دار شخص کی حالت پر تعجب ہے کہ وہ اپنے معاملات میں‘ ہر حال میں بہتر ہے اور یہ اعزاز صرف ایمان دار کو حاصل ہوتا ہے۔ اگر اسے خوشی حاصل ہو تو شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے‘ یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔“ مسائل: 1۔ صبر بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حاصل ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: صبر کا حکم اور اس کا اجر : 1۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔ (الکہف :69) 2۔ اے نبی (ﷺ) ! کفار کی باتوں پر صبر کیجیے اور صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کیجیے۔ (طٰہٰ:130) 3۔ صبر کیجیے اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ (الروم :60) 4۔ اپنے رب کے حکم کے مطابق صبر کیجیے۔ (الدھر :24) 5۔ تکلیف پر صبر کیجیے یقیناً یہ بڑے کاموں میں سے ہے۔ (لقمان :17) 6۔ صبر کرو یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (الاعراف :87)