قَالَ ذَٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ ۚ فَارْتَدَّا عَلَىٰ آثَارِهِمَا قَصَصًا
اس نے کہا یہی ہے جو ہم تلاش کر رہے تھے، سو وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانوں پر پیچھا کرتے ہوئے واپس لوٹے۔
فہم القرآن: (آیت 64 سے 68) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھول کر دریا کے سنگھم سے آگے گزر جانا اور معلوم ہونے پر واپس پلٹنا۔ یوشع بن نون نے جب عرض کی کہ حضرت جہاں آپ نے آرام کیا تھا وہاں مچھلی دریا میں کود گئی۔ لیکن میں آپ سے عرض کرنا بھول گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فوراً فرمایا یہی تو ہماری منزل تھی۔ پھر انہی قدموں پر منزل تلاش کرتے ہوئے واپس پلٹے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ دونوں نے وہاں ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا۔ جس کو ہم نے اپنی رحمت سے نواز رکھا تھا اور اپنی طرف سے خصوصی علم عطا کیا تھا۔ قرآن مجید نے اس بندے کا نام نہیں بتلایا البتہ حدیث شریف میں اس کا نام خضر آیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے اپنی حاضری کا مقصد بیان کیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو علم عطا فرمایا ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ رہ کر اس سے استفادہ کروں۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا آپ میرے کاموں پر صبر نہیں کر پائیں گے کیونکہ جس کام کی حقیقت سے آپ واقف نہیں اس پر کیونکر صبر کرسکتے ہیں۔ مفسرین نے دونوں شخصیات کی ملاقات کی تفصیل بتلاتے ہوئے لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے شاگرد خاص یوشع بن نون کے ساتھ دریاؤں کے سنگم کے پاس پہنچے تو انہوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو چادرلیے ہوئے لیٹا ہوا پایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے السلام علیکم کہا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے چہرے سے کپڑا ہٹاتے ہوئے فرمایا اس علاقہ میں السلام علیکم کہنے والے آپ پہلے شخص ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا نام بتایا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) پوچھتے ہیں کیا آپ بنی اسرائیل کے موسیٰ ہیں ؟ حضر 3 ت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا۔ جی ہاں ! میں وہی موسیٰ ہوں۔ جسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا حضرت خضر نے فرمایا کہ آپ اس بات پر کس طرح صبر کر پائیں گے، جس کی حقیقت سے آپ آگاہ نہیں ہیں۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ فرماناکہ آپ ان کاموں پر کس طرح صبر کرسکیں گے ؟ جن کی حقیقت سے آپ واقف نہیں۔ ان کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ جو کام آپ کے نزدیک خلاف شرع ہیں وہ میرے لیے جائز ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک نبی ہونے کی حیثیت سے آپ انہیں برداشت نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ پیغمبر کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ اپنے سامنے خلاف شرع کام دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا۔ پیغمبر کی خاموشی اس کام کے جائز ہونے کی دلیل بن جاتی ہے۔ اس خاموشی کو محدثین نے تقریری حدیث قرار دیا ہے یعنی ایسی بات یا کام جو رسول محترم (ﷺ) کے سامنے ہو اور آپ اس پر خاموش رہے ہوں وہ کام امت کے لیے حدیث کا درجہ رکھتا ہے۔ یعنی ایسی بات یا کام جس کو پیغمبر نے برقرار رکھا ہو۔ مسائل: 1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کا ساتھی اپنے قدموں کے نشانات پر واپس پلٹے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے علم سے نوازتا ہے۔ 3۔ حضرت خضر (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم فرمایا تھا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے علم سے نوازتا ہے : 1۔ انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا جسے ہم نے رحمت اور علم عطا کیا تھا۔ (الکہف :65) 2۔ اللہ نے انسان کو وہ کچھ سکھلایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ (العلق :5) 3۔ اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کو علم الاسماء سکھلایا۔ (البقرۃ:37) 4۔ جب حضرت موسیٰ جوانی کو پہنچے تو اللہ نے انہیں حکمت اور علم عنایت فرمایا۔ (القصص :14) 5۔ جب حضرت یوسف جوانی کو پہنچے اللہ نے انہیں دانائی اور علم بخشا۔ (یوسف :22) 6۔ بلاشبہ اللہ نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا۔ (النمل :15) 7۔ علم کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ (طٰہٰ:114)