أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ
یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگدستی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی؟ سن لو بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : مومن دنیا کی لذات اور باہمی اختلافات سے بچنے کے لیے اکثر اوقات نقصان اٹھاتے ہیں۔ اس سے انہیں تسلی دی جارہی ہے کہ جنت کی بیش بہا نعمتوں کے لیے یہ نقصان اٹھانا ہی پڑے گا۔ اس کے لیے اپنے سے پہلے ایمان والوں کا کردار سامنے رکھو کہ انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا تب جا کر اللہ تعالیٰ کی مدد کے مستحق قرار پائے۔ مکہ میں مسلمانوں کا ہر طرف سے حلقۂ حیات تنگ کردیا گیا، معاشی بائیکاٹ اور کمزوروں کو ہر قسم کے مظالم کا تختۂ مشق بنایا گیا۔ یہاں تک کہ معصوم خواتین پر جور واستبداد سر عام ہورہا تھا۔ ان حالات میں مجبوروں اور مظلوموں کے دلوں کا غم سے چور چور ہونا اور ان کا رسول کریم (ﷺ) کی خدمت میں فریاد کرنا ایک فطری عمل تھا۔ جب آپ کے حضور یہ رودادِ غم پیش کی جارہی تھی تو آپ بیت اللہ کے ساتھ ٹیک چھوڑ کر سیدھے بیٹھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے ساتھیو! کیا تم ابھی سے حوصلہ پست کربیٹھے ہو؟ جب کہ ہم سے پہلے ایمان داروں پر اس قدر ظلم کیے گئے کہ انہیں آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کردیا گیا اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کے جسم تارتار کردیے گئے لیکن پھر بھی وہ دین حق پر قائم رہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب مالقی النبی (ﷺ) وأَصحابہ من المشرکین بمکۃ] اس پس منظر کے ساتھ مسلمانوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ کیا تم امتحانات سے گزرے اور آزمائشوں میں مبتلا ہوئے بغیر نعمتوں اور عزتوں سے بھر پور جنت میں داخل ہوجاؤ گے؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جتنی منزل اہم اور مقصد عظیم ہوتا ہے اس کے لیے اتنی ہی جدوجہد اور قربانیاں دیناپڑتی ہیں۔ کیا تم نے پہلے لوگوں کی بے پناہ مشکلات اور لازوال جدوجہد پر غور نہیں کیا کہ جب ان کو جنگ وجدل‘ غربت وافلاس اور امتحانات ومشکلات کے ساتھ اس قدر آزمایا گیا کہ ان کے عزم واستقلال سے بھر پور قدم بھی ڈگمگانے لگے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وقت کارسول اور اس کے عظیم ساتھی شدت غم سے بہ تقاضائے بشریت بے ساختہ پکار اٹھے کہ اے اللہ تعالیٰ تیری مدد کب آئے گی؟ جونہی وہ کربناک حالات میں سرخرو ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دامن رحمت میں لیتے ہوئے تشفی دی کہ یقین رکھو! گھبرانے نہ پاؤ میری رحمت تمہارے سروں پر سایہ فگن ہوچکی ہے۔ اس میں رسول اللہ (ﷺ) اور آپ کے متّبعین کے لیے یہ پیغام تسلی ہے کہ اے نبی! تم عظیم ترین انسان اور رسول ہو آپ کی امت بھی امتوں میں عظیم تر ہے۔ تمہیں اپنے قدموں میں کمزوری لانے کے بجائے مضبوط اور بھر پور طریقے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ تمہاری بے مثال جدو جہد تمہارے رب کے سامنے ہے۔ وہ قادر مطلق تمہاری اس طرح مدد فرمائے گا کہ تمہارا نام اور کام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ چنانچہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ آپ (ﷺ) پر اللہ کی رحمت ونصرت اس طرح نازل ہوئی کہ مکہ اور جزیرہ نمائے عرب ہی نہیں بلکہ قیصرو کسریٰ بھی آپ کے سامنے سر نگوں ہوئے اور قرآن مجید میں بارہا یہ اعلان ہوا کہ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوا اور وہ اپنے رب پہ راضی ہوگئے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَ ۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ : حُجِبَتِ النَّار بالشَّھَوَاتِ وَحُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بالْمَکَارِہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب حجبت النار بالشھوات ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ جہنم کی آگ کو شہوات سے اور جنت کو مشکلات سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ اَوْفٰی (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ : وَاعْلَمُوْآ أَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلَال السُّیُوْفِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب الجنۃ تحت بارقۃ السیوف] ” عبداللہ بن ابی اوفی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جان لو ! یقینًا جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔“ مسائل : 1۔ جنت آزمائشوں کے بغیر نہیں ملتی۔ 2۔ حق پر قائم رہنے والے کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ بندے کے قریب ہوا کرتی ہے۔ تفسیر بالقرآن: آزمائش شرط ہے : 1۔ جنت میں داخلہ کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت :2) 2۔ پہلے لوگوں کو بھی آزمایا گیا۔ (العنکبوت :3) 3۔ ڈر سے آزمائش۔ (البقرۃ:155) 4۔ فاقوں سے آزمائش۔ (البقرۃ:155) 5۔ مال و جان کی کمی کے ساتھ آزمائش۔ (البقرۃ:155)