كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
لوگ ایک ہی امت تھے، پھر اللہ نے نبی بھیجے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے، اور ان کے ہمراہ حق کے ساتھ کتاب اتاری، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں انھوں نے اختلاف کیا تھا اور اس میں اختلاف انھی لوگوں نے کیا جنھیں وہ دی گئی تھی، اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح دلیلیں آ چکیں، آپس کی ضد کی وجہ سے، پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ نے انھیں اپنے حکم سے حق میں سے اس بات کی ہدایت دی جس میں انھوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : دنیاوی فوائد، سماجی، سیاسی، اور مذہبی اختلافات کی وجہ سے امت کی وحدت ختم ہوگئی۔ وحدت اور دین حق کے احیاء کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء مبعوث فرمائے۔ لوگوں نے ان سے بھی اختلاف کیا حالانکہ انبیاء‘ اختلافات مٹانے کے لیے آئے تھے۔ قرآن و حدیث کے علم سے بے بہرہ دین دشمن مستشرقین اور نام نہاد دانش مندوں نے کئی نسلوں سے یہ پروپیگنڈہ کر رکھا ہے کہ انسان تخلیقی طور پر تاریکی اور شرک کے ماحول میں پیدا ہوا ہے۔ اسی لیے انسان نے نسل در نسل ارتقاء کے بعد آہستہ آہستہ اپنے خالق کو پہچانا ہے۔ یہ باطل نظریات انگلش لٹریچر میں منظم طریقے کے ساتھ پھیلائے گئے ہیں اسی نظریے کی بنیاد پر عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان تخلیقی طور پر گناہگار پیدا ہوا ہے۔ قرآن مجید ایسے نظریے اور معلومات کی نفی کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ انسان اپنی تخلیق کے وقت ہی توحید کے تصور سے اس قدر آشنا ہوچکا تھا کہ اسے اپنے خالق کا اعتراف کرتے ہوئے ذرّہ برابر بھی تأمّل نہ ہوا۔ اس کی گرہ کشائی کے لیے سورۃ الاعراف آیت 172تا 174کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ ” اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں ! ہم سب گواہ ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے۔ یا یوں کہو کہ پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے، سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا؟ ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں۔“ یہاں اسی نقطہ کی وضاحت کی جارہی ہے کہ انسان فطری وبنیادی طور پر ایک نظریے کے حامل ہونے کی بنا پر ایک ہی جماعت تھے اور ان کی فطرت میں دین اسلام سمودیا گیا ہے۔ لیکن بعد ازاں وہ توحید کے نظریے سے دور ہوئے اور ان کی وحدت بھی پارہ پارہ ہوتی چلی گئی۔ رسول محترم (ﷺ) نے اپنے مخصوص الفاظ میں انسانی فطرت کی اس طرح ترجمانی فرمائی ہے : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ أَوْیُنَصِّرَانِہٖ أَوْیُمَجِّسَانِہٖ کَمَثَلِ الْبَھِیْمَۃِ تُنْتِجُ الْبَھِیْمَۃَ ھَلْ تَرٰی فِیْھَا جَدْعَاءَ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز‘ باب ماقیل فی أولاد المشرکین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، یا عیسائی، یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ چوپائے کی طرح جب جانور جنم لیتا ہے تو کیا تم اس میں کوئی کان کٹا ہوا پاتے ہو؟“ چنانچہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت ادریس (علیہ السلام) کی وفات تک پوری انسانیت نظریۂ توحید پر قائم رہتے ہوئے ایک جماعت اور کنبے کے طور پر زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) سے قبل لوگوں میں پہلی دفعہ شرک پھیلنے لگا۔ شرک کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی لوگ ایک دوسرے سے دور اور منتشر ہوتے چلے گئے کیونکہ توحید وحدت کا سبق دیتی ہے اور شرک انتشار کاسبب ہوتا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت اور انہیں یکجا رکھنے کے لیے حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت محمد (ﷺ) تک سلسلۂ نبوت جاری فرمایا۔ ان میں سے کئی انبیاء کو ضخیم کتابیں اور کچھ نبیوں کو صحائف اور باقی کو ایک دوسرے کی تائید کے لیے مبعوث فرمایا تاکہ وہ پیش آمدہ مسائل اور اختلافات میں لوگوں کو حق اور سچ کی طرف بلائیں اور ان کے باہمی اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ اختلاف پیدا کرنے میں پیش پیش رہے جن کے پاس پہلے سے آسمانی ہدایت اور دلائل آچکے تھے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی بنیادی وجہ حسد وبغض، اور ایک دوسرے پر مذہبی، معاشی، سیاسی اور شخصی بالا دستی حاصل کرنے کی کوشش تھی۔ جسے ﴿بَغْیًا بَیْنَھُمْ﴾ سے تعبیر کیا گیا۔ ایسے نام نہاد تعلیم یافتہ لوگوں نے اختلافات کو اس قدر ہوادی کہ جس میں حقیقت کو پہچاننا عام انسان کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ تاہم وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہر دور میں ہدایت پاتے رہے جنہوں نے اخلاصِ نیّت کے ساتھ ہدایت کی جستجو کی۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی سے دوچار کرتا ہے۔ اگر ان الفاظ کا وہی معنی لیا جائے جو حیلہ سازلوگ لیتے ہیں کہ ہدایت اور گمراہی اللہ کے اختیار میں ہے تو ہدایت نہ پانے میں ہمارا کیا قصور ہے؟ ایسے لوگوں کی بات تسلیم کرلی جائے تو انبیاء کی تشریف آوری، ان کی لازوال جدوجہد اور قیامت کے دن جزاء وسزا کا تصور ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کے لیے عقیدہ کے اس بنیادی اصول کو سامنے رکھیے جس میں انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ اسی طرح ہدایت اور گمراہی بھی اللہ کی ملک اور اس کے اختیار میں ہے۔ کائنات میں سب سے گراں قدر نعمت ہدایت ہے۔ یہ انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اس کے طالب اور متلاشی ہوا کرتے ہیں۔ جوہدایت سے انحراف کرتے ہیں ان کے لیے گمراہی کاراستہ آسان ہوتا ہے۔ اس مفہوم کو قرآن مجید ﴿یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ﴾ [ النحل :93] کے الفاظ سے بیان کرتا ہے۔ مسائل : 1۔ ہر انسان فطرت سلیم اور عقیدۂ توحید پر پیدا ہوتا ہے۔ 2۔ حق پہنچانے اور اختلافات مٹانے کے لیے انبیاء مبعوث ہوئے۔ 3۔ اختلافات کی بنیادی وجہ توحید سے بغاوت اور ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کی رہنمائی کرتا ہے۔ 5۔ ہدایت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہے دے دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : نبوت کے مقاصد : 1۔ بعثت انبیاء کے مقاصد۔ (البقرہ : 213، المزمل : 15، الجمعۃ:2) 2۔ انبیاء تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتے ہیں۔ (ابراہیم : 1، 5) 3۔ انبیاء کا مقصد لوگوں میں عدل وانصاف قائم کرنا۔ (النساء :105) 4۔ نبی کو حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ (صٓ:26) 5۔ رسول (ﷺ) حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والے ہیں۔ (المائدۃ:42) 6۔ رسول (ﷺ) شاہد اور مبشر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ (الأحزاب :45) 7۔ رسول (ﷺ) رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث کیے گئے۔ (الأنبیاء :107) 8۔ رسول (ﷺ) شفیق ومہربان بناۓ گئے ہیں۔ (آل عمران :159)