وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، وہ جنوں میں سے تھا، سو اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی، تو کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر دوست بناتے ہو، حالانکہ وہ تمھارے دشمن ہیں، وہ (شیطان) ظالموں کے لیے بطور بدل برا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 50 سے 51) ربط کلام : مجرموں کو ان کا حساب و کتاب اور آخرت کا منظر دکھاکر یہ بتلایا گیا ہے کہ انسان کی گمراہی کا بنیادی محرک ابلیس ہے۔ جس سے بچنا چاہیے۔ قرآن مجید کا یہ اسلوب بیان ہے کہ وہ کسی واقعہ کو داستان گوئی کے انداز میں بیان نہیں کرتا۔ وہ ہر واقعہ کو موقع محل کے مطابق اتاب ہی بیان کرتا ہے۔ جتنا بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی اسلوب کے مطابق حضرت آدم اور ابلیس کا واقعہ مختلف الفاظ اور انداز میں قرآن مجید کے مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ یاد رہے شیطان کے بارے میں اس سے پہلے یہ الفاظ استعمال نہیں ہوئے کہ شیطان جنس کے اعتبار سے جنات میں سے ہے۔ البتہ آگے چل کر سورۃ صٓ میں ﴿کَانَ مِنَ الْجِنِّ﴾ کے الفاظ موجود ہیں۔ یہاں شیطان کی جنس بتا کر یہ اشارہ دیا ہے۔ کیونکہ وہ ملائکہ کی جنس میں سے نہ تھا جس کی وجہ سے اس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ جنوں اور انسانوں میں اطاعت گزاری اور حکم عدولی دونوں طرح کے جذبات موجود ہیں۔ اس لیے جنوں اور انسانوں کو یہ اختیا ردیا گیا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تابعداری کریں اگر وہ تابعداری کی بجائے نافرمانی کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسا کرنے کی مہلت دی گئی ہے۔ لیکن ملائکہ کی سرشت میں منفی عنصر ہے ہی نہیں وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی تابعداری کرتے ہیں۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو حضرت آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اپنی فطرت کے مطابق حکم کی بجاآوری کی۔ لیکن شیطان نے فطرت کے صحیح جذبے کو استعمال کرنے کی بجائے منفی جذبے کی بدولت حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ یہاں ابن آدم کو غیرت دلانے کے انداز میں سمجھایا گیا ہے کہ کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو اللہ تعالیٰ کے سوا اپنا خیر خواہ اور دوست سمجھتے ہو؟ حالانکہ شیطان اور اس کی ذرّیت تمہارے کھلے دشمن ہیں۔ شیطان اور اس کی اولاد کو دوست بنانے والے ظالم ہیں اور ظالموں نے اللہ تعالیٰ کی دوستی کے مقابلے میں کس قدر بری دوستی اختیار کی ہے۔ کیونکہ شیطان جنّات میں سے ہے دنیا میں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جوجنّات سے مدد طلب کرتے ہیں۔ عربوں کے ہاں بھی رواج تھا کہ وہ پہاڑی سفر کے دوران رہنمائی اور مشکل میں جنات کو پکارا کرتے تھے۔ اس عقیدہ کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جن کو تم مشکل کے وقت پکارتے ہو نہ میں نے ان کو زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت بلایا اور شامل کیا اور نہ ہی ان کی اپنی تخلیق میں ان کا یا کسی اور کا عمل دخل ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنیوالوں کو اللہ تعالیٰ اپنا معاون نہیں بنا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کی معاونت کی حاجت نہیں۔ وہ ہر قسم کی کمزوری سے پاک اور مبرا ہے۔ یہاں صرف سمجھانے اور لوگوں کو شیطان سے نفرت دلانے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ یہاں ابلیس کو جنات کی جنس قرار دیا گیا ہے۔ اس پر بحث کرتے ہوئے اہل علم نے لکھا ہے کہ گو اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو سجدہ کرنے کا حکم دیاتھا لیکن ابلیس افضلیت کے اعتبار سے کم ہونے کی وجہ سے اس حکم میں شامل تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو شیطان ادھر ادھرکی باتیں کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عذر پیش کرتا کہ آپ نے تو حکم ملائکہ کو دیا ہے مجھے تو حکم دیا ہی نہیں گیا میں سجدہ کیوں کرتا؟ مجھے راندہ درگاہ کیوں کیا جارہا ہے؟ لہٰذاجن لوگوں نے لفظی مو شگافیوں میں آکر ابلیس کی وکالت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا موقف مضحکہ خیز ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ گواہ چست اور مدعی سست ہونے کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی مو شگافیوں سے بچائے۔ آمین یا ارحم الرٰحمین۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ 2۔ فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا۔ 3۔ ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا۔ 4۔ ابلیس جنوں میں سے تھا۔