سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا
عنقریب وہ کہیں گے تین ہیں، ان کا چوتھا ان کا کتا ہے اور کہیں گے پانچ ہیں، ان کا چھٹا ان کا کتا ہے، بن دیکھے پتھر پھینکتے ہوئے اور کہیں گے سات ہیں، ان کا آٹھواں ان کا کتا ہے۔ کہہ دے میرا رب ان کی تعداد سے زیادہ واقف ہے، انھیں بہت تھوڑے لوگوں کے سوا کوئی نہیں جانتا، سو تو ان کے بارے میں سرسری بحث کے سوابحث نہ کر اور ان لوگوں میں سے کسی سے ان کے بارے میں فیصلہ طلب نہ کر۔
فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کے درمیان اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں اختلاف رہا ہے، اس بارے میں خصوصی ہدایت۔ اصحاب کہف کے بارے میں شروع سے لوگوں میں یہ اختلاف رہا ہے کہ ان کی تعداد کتنی تھی ؟ یہی اختلاف نبی کریم (ﷺ) کے زمانے میں بھی تھا۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ وہ تین آدمی تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ دوسروں کا خیال تھا کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ تیسرے گروہ کا خیال تھا کہ وہ سات جوان تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ آپ (ﷺ) کو یہ کہہ کر اس بحث سے لاتعلق رہنے کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ آپ فرمائیں کہ میرا رب ان کی تعداد کو خوب جانتا ہے۔ ان کی صحیح تعداد کو بہت تھوڑے لوگ جانتے ہیں لہٰذا آپ کو اس معاملے میں سرسری گفتگو سے بڑھ کرزیادہ بات نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی اصحاب کہف کے بارے میں کسی سے جاننے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ نوجوان تھوڑے ہوں یا زیادہ اصل بات تو ان کا عقیدہ اور کردار ہے۔ ﴿مَایَعْلَمُھُمْ الاَّ قَلِیْلٌ﴾[ الکھف :22] ” چند لوگوں کے سوا اصحاب کہف کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔“ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ میں ان قلیل لوگوں میں سے ہوں جو جانتے ہیں کہ ان کی اصل تعداد کیا تھی۔ اپنے موقف کی تائید کے لیے وہ یہ دلیل دیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں پہلی دو تعداد کا یہ کہہ کر رد فرمایا ہے کہ اس کے بارے میں لوگ اٹکل پچوسے باتیں کرتے ہیں۔ اصحاب کہف کی تعداد سات تھی اور آٹھواں ان کا کتا تھا یہ بتلاکر اس کی تردید نہیں کی گئی۔ اس بنیاد پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد سات تھی اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ (واللہ اعلم) اس آیت مبارکہ میں رسول اکرم (ﷺ) کو مخاطب کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جن باتوں کا براہ راست شریعت اور عمل کے ساتھ تعلق نہ ہو۔ انکے بارے میں بحث مباحثہ اور پوچھ گچھ کرنا مناسب نہیں کیونکہ جن لوگوں کو لایعنی باتوں میں پوچھ گچھ اور بحث ومباحثہ کرنے کی عادت ہوجائے۔ دیکھا گیا ہے کہ ان لوگوں کی اکثریت بے عمل ہوتی ہے۔ بلکہ ان کی غالب اکثریت گمراہ ہوجایا کرتی ہے۔ نبی کریم (ﷺ) نے ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ ’ حضرت علی (رض) کہتے ہیں جب میں تمہیں رسول اللہ (ﷺ) سے کوئی حدیث بیان کروں تو اللہ کی قسم ! مجھے آسمان سے گرنا زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ میں آپ (ﷺ) پرجھوٹ بولوں۔ جب میں تمہارے اور اپنے درمیان بات کرتا ہوں تو یقیناً جنگ دھوکہ ہے۔ یقیناً میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ فرما رہے تھے۔ آخری زمانے میں لوگ ہوں گے، چرب زبان، نادان ہوں گے، اچھی اور بھلائی کی بات کرنے والے ہوں گے، ان کا ایمان ان کی حلقوم سے تجاوز نہیں کرے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔ جہاں بھی تم انہیں پاؤقتل کردو۔ یقیناً ان کو قتل کرنے والے آدمی کے لیے قیامت کے دن اجر ہوگا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب استتابۃ المرتدین] (عَنْ عَلِیِّ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ سَےَخْرُجُ قُوْمٌ فِی اٰخِرِ الزَّمَانِ حُدَّاثُ الْاَنْسنَانِِ سُفَھَآءُ الْاَحْلَامِ یَقُولُوْنَ مِنْ قَوْلِ خَیْرِ الْبَرِیَّۃِ لَا یُجَاوِزُ اِیْمَانُھُمْ حَنَاجِرَھُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الَّدِیْنَ کَمَا یَمْرُقُ السُّھْمُ مِنَ الرَّمْیَۃِ) [ رواہ ا لبخاری : کتاب استتابۃ المرتدین باب قتل الخوارج] ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا ہے آپ (ﷺ) فرماتے ہیں کہ آخری زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو نوعمر، عقل ودانش کے لحاظ سے نادان، کتاب وسنت کو پیش کریں گے مگر حقیقتاً نور ایمان سے ایسے خالی ہوں گے کیونکہ ایمان ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار ہوجاتا ہے۔“ تفسیربالقرآن : ہر چیزکا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے : 1۔ فرما دیجیے ! میرا پروردگار ہی ان کی تعداد کا علم رکھتا ہے۔ (الکھف :22) 2۔ اصحاب کہف نے کہا تمہارا رب جانتا ہے تم کتنی دیر ٹھہرے ہو؟ (الکھف :19) 3۔ اللہ جانتا ہے رسالت کسے عطا کرنی ہے ؟ (الانعام :124) 4۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (ھود :5) 5۔ اللہ جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے۔ (ھود :31) 6۔ اللہ ہدایت یافتہ لوگوں کو جانتا ہے۔ (القلم :7)