سورة الكهف - آیت 21

وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اسی طرح ہم نے (لوگوں کو) ان پر مطلع کردیا، تاکہ وہ جان لیں کہ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ بے شک قیامت، اس میں کوئی شک نہیں۔ جب وہ ان کے معاملے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے تو انھوں نے کہا ان پر ایک عمارت بنا دو۔ ان کا رب ان سے زیادہ واقف ہے، وہ لوگ جو ان کے معاملے پر غالب ہوئے انھوں نے کہا ہم تو ضرور ان پر ایک مسجد بنائیں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : اصحاب کہف کو تین سو نو سال کے بعد اٹھانے کی حکمت اور عقیدہ آخرت کا ایک اور ٹھوس ثبوت۔ یہ حقیقت پہلے بھی کئی بار عرض کی جاچکی ہے کہ عقیدہ آخرت اسلام کا تیسر ابنیادی عقیدہ اور اصول ہے جس کے لیے ناصرف قرآن مجید نے عقلی اور نقلی دلائل دیئے ہیں۔ بلکہ اس حقیقت کے اثبات کے لیے انسانی تاریخ میں پھیلے ہوئے ایسے واقعات بیان فرمائے ہیں کہ جن سے ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ضرور انسان کو پیدا فرمائے گا۔ اصحاب کہف کو بھی تین سونو سال کے بعد اس لیے جگایا اور اٹھایا گیا تاکہ انہیں اور ان کے حوالے سے لوگوں کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر صورت قیامت برپا کرنے کا وعدہ پور اکرے گا۔ جس کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اصحاب کہف نے مشورہ کرنے کے بعد جس ساتھی کو شہر میں کھانے کے لیے بھیجا تھا جب وہ شہر گیا۔ تو اس نے شہر اور لوگوں کو بالکلبدلا ہو اپایا۔ جب اس نے تین سو نو سال پہلے کی کرنسی پیش کی تو دکان دار کا کیا ردعمل تھا۔ وہ کھانا لے کر غار میں واپس آیا اور اسکے ساتھ کیا کیا واقعات پیش آئے۔ اس کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ کیونکہ ان باتوں پر رد عمل کا ہونا ایک فطری بات ہے۔ لہٰذا اس کے ذکر کی چنداں ضرورت نہیں تھی جس پر اس کی تفصیلات بیان نہیں کی گئی ہیں۔ البتہ مفسرین اور مؤرخین نے یہ واقعات درج کیے ہیں کہ جب وہ غار سے نکلا، شہر میں داخل ہو اتو شہر کی حالت، لوگوں کا رہن سہن اور ان کے نظریات میں تبدیلی محسوس کی۔ جب اس نے کھانے کی قیمت پیش کی تو دکاندارنے کہا یہ کرنسی تو بہت پرانی ہے۔ اس نے کہا کل تو یہ کرنسی استعمال ہوتی تھی راتوں رات اسے کیا ہوگیا ہے۔ ان کی آپس میں ہونے والی تکرار سن کر لوگ اکٹھے ہوئے۔ مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے۔ بالآخر لوگوں نے عجوبہ سمجھ کر غار تک اس کا پیچھا کیا وہ لوگوں کے سامنے غار میں داخل ہوا لیکن اس کا پیچھا کرنے والوں کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ آگے بڑھ کر غار میں جھانک سکیں۔ جب یہ بات حکمرانوں تک پہنچی تو ذمّہ داران حکومت غار کے دہانے پر پہنچے بعدازاں ان میں اس بات پر تنازعہ ہواکہ ان کی یادگار کیسی ہونی چاہیے ؟ بالآخر جو طبقہ اپنی رائے میں غالب رہا انہوں نے فیصلہ کیا کہ غار کے قریب مسجدتعمیر کی جائے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہ () قَالَ قَاتَلَ اللَّہُ الْیَہُودَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَا) [ رواہ البخاری : باب حدثنا ابو الیمان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ یھودیوں کو ہلاک کرے انہوں نے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔“ مسائل: 1۔ قیامت آنے والی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچاہے۔ 2۔ اصحاب کہف کے غار کے پاس ایک مسجد تعمیرکی گئی۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے : 1۔ ہم نے ان کو ان کے حال سے خبردار کردیا تاکہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ (الکھف :21) 2۔ اللہ کا وعدہ یقیناً پوراہو کر رہے گا۔ (بنی اسر ائیل :108) 3۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور اللہ تعالیٰ کی بات سے کس کی بات سچی ہو سکتی ہے؟ (النساء :122) 4۔ آگاہ رہو ! اللہ کا وعدہ سچاہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہیں۔ (یونس :55) 5۔ بلاشبہ اللہ کا وعدہ برحق ہے لہٰذا تمہیں دنیاکی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے۔ (لقمان :33) 6۔ صبر کیجئے اللہ کا وعدہ سچاہے۔ (المومن : 55۔77) 7۔ قیامت کے دن شیطان کہے گا یقیناً اللہ نے تمہارے ساتھ برحق وعدہ فرمایا تھا۔ (ابراہیم :22) 8۔ اے لوگو! یقیناً اللہ کا وعدہ برحق ہے تمہیں دنیاکی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے۔ (فاطر :5)