وَكَذَٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ ۚ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۚ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا
اور اسی طرح ہم نے انھیں اٹھایا، تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں، ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا تم کتنی دیر رہے؟ انھوں نے کہا ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے، دوسروں نے کہا تمھارا رب زیادہ جاننے والا ہے جتنی مدت تم رہے ہو، پس اپنے میں سے ایک کو اپنی یہ چاندی دے کر شہر کی طرف بھیجو، پس وہ دیکھے کہ اس میں کھانے کے لحاظ سے زیادہ ستھرا کون ہے، پھر تمھارے پاس اس سے کچھ کھانا لے آئے اور نرمی و باریک بینی کی کوشش کرے اور تمھارے بارے میں کسی کو ہرگز معلوم نہ ہونے دے۔
فہم القرآن : (آیت 19 سے 20) ربط کلام : اصحاب کہف کا اٹھایا جانا، ان کا ایک دوسرے سے اپنے قیام کے بارے میں پوچھنا اور اپنی قوم کے ظلم سے ڈرنا۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو تین سو نو سال کے بعد اٹھایا۔ تاکہ یہ ایک دوسرے سے پوچھیں کہ یہاں کتنی دیر ٹھہرے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ اس بات کو منکرین آخرت کے لیے حجت قرار دیا ہے۔ اصحاب کہف کو تین سو نو سال سلانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اٹھایا، جونہی وہ لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھے تو ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ بھائی! ہم کتنی دیر یہاں ٹھہرے رہے ہیں ؟ ہر کسی نے سورج کا حساب لگا کر بتایا کہ ہم چند گھنٹے یا ایک دن سوئے رہے ہیں۔ اس اندازے کی دو وجہ تھیں۔ جب وہ سورج کو دیکھتے تو انہیں گمان ہوتا کیونکہ سورج غروب ہونے میں ابھی وقت باقی ہے اس بناء پر کچھ ساتھی کہتے ہیں کہ ہم چند گھنٹے سوئے ہیں۔ لیکن جب اپنی طبیعت کے سکون اور جسمانی آرام پر توجہ دیتے تو کہتے ہیں نہیں ہم ایک دن سوئے ہیں۔ گویا کہ ان کا اس بات پر اتفاق نہ ہوسکا کہ وہ کتنی دیر سوئے ہیں۔ قرآن مجید نے ان کی برادرانہ بحث کو من وعن اسی طرح نقل فرمایا ہے۔ اس کے بعد انہیں بھوک محسوس ہوئی اور انہوں نے فیصلہ کیا۔ اپنے میں سے ایک ساتھی کو کچھ رقم دے کر قریب کے شہر میں بھیجاجائے اور اسے سمجھایا کہ وہ صاف ستھراکھا نا لانا اور آنے جانے میں بھی احتیاط کرنا تاکہ ہمارے بارے میں کسی شخص کو کوئی خبر نہ ہونے پائے اگر لوگوں کو خبر ہوگئی تو وہ ہمیں پکڑ کر سنگسار کردیں گے۔ یا ہمیں شرک کرنے پر مجبور کریں گے۔ شرک کرنے اور مرتد ہونے کی صورت میں ہم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ غار میں اصحاب کہف کی گفتگو کے چند نکات۔ 1۔ اصحاب کہف اس بات پر متفق نہ ہوئے کہ ہم کتنی دیر تک سوئے رہے ہیں۔ یہی حالت حضرت عزیر (علیہ السلام) کی بیان کی گئی ہے کہ جب ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک سو سال سلائے رکھا۔ جس کے بارے میں موت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اصحاب کہف کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ ہم کتنی دیرتک سوئے رہے ہیں۔ 2۔ اصحاب کہف کا اپنے ساتھی کو صاف ستھرا کھانا لانے کی تاکید کرنا، ان کی نفاست اور رزق حلال کھانے کی ترجمانی کرتا ہے۔ 3۔ ساتھی کو آنے جانے میں احتیاط کا پہلو اختیار کرنے کی تلقین کرنا، ان کی سمجھداری اور جن حالات میں انہوں نے اپنا علاقہ چھوڑا تھا۔ اس سے نازک ترین حالات اور شدید خطرات کا پتہ چلتا ہے۔ 4۔ جن حالات کے پیش نظر انہوں نے اپنا وطن چھوڑا تھا کہ اگر وہ غار میں پناہ نہ لیتے تو مشرک انہیں سنگسار کردیتے یا انہیں شرک میں مبتلا کردیتے جو ہلاکت کا راستہ ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کوتین سو نوسال کے بعد اٹھایا۔ 2۔ کھانا پاکیزہ کھانا چاہیے۔ 3۔ اہم کام میں راز داری کا خیال رکھنا چاہیے۔ 4۔ مشرک اور مرتد کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔