وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ۗ مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا
اور تو سورج کو دیکھے گا جب وہ نکلتا ہے تو ان کی غار سے دائیں طرف کنارہ کرجاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بائیں طرف کو کترا جاتا ہے اور وہ اس (غار) کی کھلی جگہ میں ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، جسے اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے گمراہ کر دے، پھر تو اس کے لیے ہرگز کوئی رہنمائی کرنے والا دوست نہ پائے گا۔
فہم القرآن : (آیت 17 سے 18) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، جس غار میں نوجوان داخل ہوئے اس کا نقشہ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رہنمائی سے انہیں ایسی غارکا انتخاب کرنے کی توفیق عنایت فرمائی کہ جس کا اندرونی اور بیرونی نقشہ یوں بیان فرمایا ہے کہ صبح کے وقت سورج غار کے دہانے پردائیں طرف مڑجاتا اور غروب کے وقت دہانے سے بائیں سمت ہوجاتا۔ اس طرح وہ دوپہر اور پچھلے پہر سورج کی تمازت سے محفوظ کردیئے گئے۔ اس غار کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے۔ گویا کہ غار ہر اعتبا رسے محفوظ ہونے کے ساتھ تازہ ہوا اور مناسب روشنی کی مرکز بنادی گئی۔ غار اندر سے اس قد رکشادہ اور ہموار تھی جس کے لیے ﴿ فجوۃ﴾ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کا معنیٰ ہے ” چٹیل میدان“۔ اسکے ساتھ ہی غار پر اس قدر اللہ تعالیٰ نے اپنی جلالت وجبروت کا رعب ڈال دیاتھا۔ کہ عام شخص تو درکنار رسول اکرم (ﷺ) کو فرمایا ہے کہ آپ بھی اس غارکی ہیبت دیکھ کراس کے اندر جانے کی ہمت نہیں کرسکیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کرم فرمائی ہے کہ جو اس سے ہدایت کا طالب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے اور جوگمراہی کو پسند کرتا ہے اسے وہ گمراہ رہنے دیتا ہے۔ اسی اصول کے تحت اللہ تعالیٰ ہدایت اور گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ کیونکہ ہدایت اور گمراہی بھی اسی کی ملک ہیں۔ لہٰذا جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے وہ اپنے لیے کسی کو ولی اور مرشد نہیں پائے گا۔ سبحان اللہ یہاں کیسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ دنیا میں گمراہ لوگوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو ولی اور مرشد سمجھتے ہیں جو حقیقتاً ان کے دشمن اور خود گمراہ ہوتے ہیں۔ وہ ولایت کے پردے اور مرشد ہونے کی آڑ میں لوگوں کے مال، جان اور ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ یہ غار نہ صرف اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ بلکہ اس میں آرام کرنے والے توحید کے علمبرداروں کی حالت یہ ہے کہ مدت تک وہ پر سکون نیند میں محو خواب رہے۔ مگر دیکھنے والا ان کے چہروں کی تروتازگی دیکھ کر سمجھتا کہ یہ جاگ رہے ہیں نہ صرف وہ جاگ رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی کروٹیں بھی تبدیل کرتارہا۔ مسائل: 1۔ اصحاب کہف اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ 2۔ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے وہی ہدایت پاتا ہے۔ 3۔ جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن: ہدایت وگمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ 1۔ جسے اللہ ہدایت دے وہ ہدایت یافتہ ہے اور جس کو وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی دوست اور راہ بتانے والا نہیں پاؤ گے۔ (الکہف : 17) 2۔ جس کو آپ چا ہیں ہدایت نہیں دے سکتے۔ ہدایت اسی کو ملتی ہے جسے اللہ ہدایت دیتا ہے۔ (القصص :56) 3۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پر ہے۔ جس کو وہ گمراہ کردے وہ نقصان اٹھائیں گے۔ (الاعراف :178) 4۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (ابراہیم :4)