وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحْمَتِهِ وَيُهَيِّئْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا
اور جب تم ان سے الگ ہوچکے اور ان چیزوں سے بھی جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں تو کسی غار کی طرف (جاکر) پناہ لے لو، تمھارا رب تمھارے لیے اپنی کچھ رحمت کھول دے گا اور تمھارے لیے تمھارے کام میں کوئی سہولت مہیا کر دے گا۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، بالآخر مجبور ہو کر نوجوانوں کا قوم سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ۔ نامعلوم نوجوانوں نے کتنی مدّت اور کس قدر مظالم برداشت کیے ہوں گے۔ یہاں تک کہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ یقیناً انہوں نے با ربا رسوچا ہوگا کہ جائیں تو کہاں جائیں ؟ سلطنت رومہ میں ہر جگہ شرک کا غوغہ مچ رہا ہے۔ وقت کی حکومت ان کی دشمن ہوچکی ہے۔ جب حکومت اور عوام اس بات پر متفق ہوگئے کہ ان کو پتھر مارمار کر جان سے مار دینا چاہیے تو اس صورت حال میں اللہ کی توحید کے متوالوں اور اس کی عظمت پر سب کچھ قربان کردینے والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں ان لوگوں سے اپنی جان اور ایمان بچانا چاہیے۔ جو اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ بات طے کرنے اور ایک دوسرے کو تسلی دیتے ہوئے غار میں داخل ہوئے کہ تمہار ارب تم پر کرم فرمائے گا اور ہمارے کام میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اسباب مہیا فرمائے گا۔ بعض مفسرین نے ان الفاظ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یہ بات القاء کردی تھی۔ جس بناء پر انہیں یقین ہوگیا کہ ہمارا رب اپنے کرم سے ہماری مشکلات کو ضرور آسان فرمائے گا کیونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب وہ توحید کی دعوت لے کر اٹھے تو ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا۔ کیونکہ مواحد کا اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے اور وہ اسی سے مدد کا طلبگار ہوتا ہے۔ مسائل: 1۔ اصحاب کہف نے معبودان باطل کو چھوڑ کر غار میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ 2۔ جو اللہ کی راہ میں نکلتا ہے وہ اللہ کی رحمت کا حقدار ہوجاتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔