سورة الكهف - آیت 4

وَيُنذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ان لوگوں کو ڈرائے جنھوں نے کہا اللہ نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 4 سے 5) ربط کلام : اس سے پہلی آیات میں مومنوں کو خوشخبری دی گئی ہے اور اب ان لوگوں کو انتباہ کیا جاتا ہے جو مخلوق میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید ان لوگوں کو سخت ترین انتباہ کرتا ہے جو ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے۔ حالانکہ ان کے پاس نہ اس کی دلیل ہے اور نہ ہی ان کے آباؤ اجداد علم کی بنیاد پر یہ عقیدہ رکھتے تھے گویا کہ یہ عقیدہ اور بات سراسر جہالت پر مبنی ہے۔ یہ لوگ نہیں سوچتے کہ جو بات اپنی زبان سے نکال رہے ہیں یہ جھوٹ ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی گستاخی ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آخری آیت کی تشریح میں عرض کیا جا چکا ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور کفار میں سے ایک گروہ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کسی کی شراکت سے مبرّا اور اولاد کی حاجت سے بے نیاز ہے۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد یا شریک ٹھہرانا مشرکوں کی ذہنی پستی اور فکری دیوانگی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے باطل تصور ات اور ہر قسم کی یاوا گوئی سے پاک اور مبرّا ہے۔ کائنات کی تخلیق کے لیے بدیع کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا کہ جس اللہ نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے اور میٹریل کے اوپر نیچے سات آسماں اور تہ بہ تہ سات زمینیں پیدا کی ہیں اسے اولاد کی کیا حاجت ہے ؟ اولاد انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، قلبی سکون کا باعث، اس کی زندگی کا سہارا، معاملات میں اس کی معاون اور اس کے سلسلۂ نسب قائم رہنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ان باتوں میں سے کسی بات کی ضرورت نہیں ہے۔ اولاد ہونے کا منطقی نتیجہ ہے کہ اس کی بیوی ہو کیونکہ بیوی کے بغیر اولاد کا تصور محال ہے۔ فرشتوں اور جنات کو خدا کی بیٹیاں، انبیاء کو خدا کا بیٹا قرار دینے سے اللہ تعالیٰ کی بیوی ثابت کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ اولاد کسی نہ کسی طرح باپ کے مشابہ اور اس کی ہم جنس اور ہم نسل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ان حاجات اور تمثیلات سے پاک ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِیْ ابْنُ اٰدَمَ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ فَاَمَّا تَکْذِیْبُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لَنْ یُّعِیْدَنِیْ کَمَا بَدَاَنِیْ وَلَیْسَ اَوّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہٖ وَاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا)[ رواہ البخاری : باب وقالوا اتخذاللہ ولدا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں۔ وہ میرے بارے میں زبان درازی کرتا ہے یہ اسے ہرگز جائز نہیں۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کریگاجیساکہ اس نے پہلی بار پیدا کیا۔ حالانکہ میرے لیے دوسری دفعہ پیدا کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ اس کا میرے بارے میں یہ کہنا بدکلامی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ میں اکیلا اور بے نیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنم دیا اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی بھی میری برابری کرنے والا نہیں۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ ابن آدم کی میرے بارے میں بدکلامی یہ ہے کہ میری اولاد ہے جبکہ میں پاک ہوں نہ میری بیوی ہے نہ اولاد۔ مسائل: 1۔ ایسے لوگوں کو ڈرانا چاہیے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے۔ 2۔ مشرکین اور ان کے آباؤ اجداد کے پاس اللہ تعالیٰ کی اولاد ہونے کی کوئی دلیلنہ تھی اور نہ ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ پرکفار جھوٹ باندھتے ہیں۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں ہے : 1۔ ان لوگوں کو ڈرائیے جو کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے۔ (الکھف : 4۔5) 2۔ انہوں نے کہا کہ رحمٰن کی اولاد ہے یہ تم بہت ہی بری بات کہتے ہو۔ (مریم : 88تا89) 3۔ اللہ کے لیے لائق نہیں کہ اس کی اولاد ہو وہ اولاد سے پاک ہے۔ (مریم :35) 4۔ اللہ ہی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے اور اس کی کوئی اولاد نہیں۔ (الفرقان :2) 5۔ انہوں نے کہا اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ اولاد سے پاک اور بے نیاز ہے۔ (یونس :68)