قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورًا
کہہ دے اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اس وقت تم خرچ ہوجانے کے ڈر سے ضرور روک لیتے اور انسان ہمیشہ سے بہت بخیل ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : اس خطاب کا آغاز آیت نمبر 85سے ہوا تھا۔ اس سے اگلی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو عظیم نعمت قرار دیتے ہوئے فرمایا۔ اے نبی ! اللہ تعالیٰ کا آپ پر یہ عظیم فضل ہے کہ اس نے آپ کو اپنے پیغام کے لیے منتخب کیا ہے اور قرآن مجید جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی اب اس خطاب کا اختتام کرتے ہوئے کفار کو مخاطب کیا گیا ہے۔ کہ حق کا انکار کرنے والا صرف روحانی اور اخلاقی طور پر کم ظرف نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ دنیوی طور پر بھی بخیل اور کم ظرف ہوتا ہے۔ دیگر فرسودہ دلائل کے ساتھ اہل مکہ اس لیے نبی (ﷺ) کی نبوت کا انکار کرتے تھے کہ یہ بشر ہے اور ہم اس جیسے چلتے پھرتے انسان کو اپنے آپ پر کس طرح بڑاتسلیم کرسکتے ہیں۔ اس بات کا اظہار ابو جہل نے اپنے ایک ساتھی کے سامنے یوں کیا تھا کہ زم زم کا انتظام، حجاج کی خدمت اور فلاں فلاں کام بنو ہاشم نے سنبھال رکھے ہیں۔ اگر ہم ان کے آدمی کی نبوت کا اعتراف کرلیں تو خاندانی طور پر ہمارے پلے کیا رہ جاتا ہے ؟ اس لیے میں اسکی نبوت کا انکار کرتا ہوں اور تا دم آخر کرتارہوں گا۔ گویا کہ کفار اپنی طبیعت کا انقباض اور چھوٹا پن چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کے چھوٹے پن اور کم ظرفی کو اس حوالے سے ذکر کیا گیا ہے۔ جس میں بین السطور آپ کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ آپ کو پریشان ہونے کی بجائے اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ یہ تو اس قدرکم ظرف لوگ ہیں کہ اگر ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے جمع ہوجائیں تو یہ خرچ کرنے کی بجائے ان پر سانپ بن کربیٹھ جائیں۔ کیونکہ انسان بنیادی طور پر تنگ دل واقع ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان کا کچھ نہ کچھ طبعی رجحان بخل کی طرف ہوتا ہے لیکن کافر اس لیے زیادہ بخیل ہوتا ہے کہ اسے آخرت میں کسی اجروثواب کی امید نہیں ہوتی مال کے حوالے سے کافر کے بخیل ہونے کا ذکر فرماکر یہ واضح کیا گیا ہے۔ یہ اس کی کم ظرفی کا نتیجہ ہے کہ جس طرح وہ اپنے ہاتھ سے کوئی چیز دینا پسند نہیں کرتا اسی طرح ہی اپنا باطل نظریہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسلام قبول کرنے میں کافر کو اپنے مال اور دنیوی عزت کے بارے میں نقصان کا اندیشہ ہوتا۔