سورة الإسراء - آیت 99

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلًا لَّا رَيْبَ فِيهِ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُورًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ بے شک وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اس پر قادر ہے کہ ان جیسے پیدا کر دے اور اس نے ان کے لیے ایک وقت مقرر کیا ہے، جس میں کچھ شک نہیں، پھر (بھی) ظالموں نے کفر کے سوا (ہر چیز سے) انکار کردیا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : آخرت کے منکر کہتے ہیں کہ ہماری ہڈیاں ریزہ، ریزہ ہوجانے کے بعد ہمیں کون زندہ کرے گا ؟ ایسے لوگوں کو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ آخرت کا انکار کرنے کے لیے منکرین کے پاس بڑی سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جب ہماری ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو کر مٹی کے ساتھ مل جائیں گی۔ تو ہمیں کس طرح زندہ کیا جائے گا؟ قرآن مجید نے دیگر دلائل کے ساتھ یہ دلیل بھی پیش فرمائی ہے کیا آخرت کے منکر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ جس اللہ نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ ان جیسے اور لوگ پیدا کرے۔ اس نے لوگوں کو دوبارہ پیدا کرنے کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ جس کے آنے میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ظالم اس دن کا انکار کرتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی کئی دفعہ قرآن نے واضح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمینوں و آسمانوں کو بغیرنمونے کے پیدا کیا ہے۔ یعنی ان کے پیدا کرنے سے پہلے نہ زمین و آسمان کا میٹریل تھا اور نہ ہی نمونہ موجود تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ناصرف ان کا میٹریل پیدا کیا۔ بلکہ اس کے حکم سے زمین و آسمان معرض وجود میں آئے کیونکہ جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے۔ تو فقط اتنا فرماتا ہے کہ ” ہوجا“ وہ کام اور چیز اللہ کی منشاء کے مطابق وجود میں آجاتی ہے۔ (البقرۃ:117) یہاں زمین و آسمان کی تخلیق کا حوالہ دے کر انسان کو اس پر غور کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ تاکہ اسے معلوم ہو کہ زمین و آسمان کے پیدا کرنے کے مقابلے میں انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کیونکر مشکل ہے۔ یعنی انسان کی پیدائش زمین و آسمان کی پیدائش سے کھربوں کے حساب سے زیادہ آسان ہے۔ لیکن انسان کے ظلم کی انتہا یہ ہے کہ جب وہ کسی حقیقت کا انکار کرنے پر ضد اختیار کرلے تو اسے کوئی دلیل قائل نہیں سکتی۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللَّہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّی لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِی ثُمَّ اسْحَقُونِی ثُمَّ ذَرُّونِی فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوا، فَجَمَعَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہِ )[ رواہ البخاری : کتاب احادیث الأنبیاء، الباب الأخیر] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی تھا اللہ نے اس کو مال کے اعتبار سے بڑی فراوانی دی تھی۔ اس نے اپنے بیٹوں کو حاضر کرکے کہا کہ میں تمہارا کیسا باپ تھا ؟ انہوں نے کہا بہترین! اس نے کہا یقیناً میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا۔ جب میں مر جاؤں تو تم مجھے جلا دینا۔ پھر میری راکھ کو دور لے جاکر ہواؤں میں اڑا دینا۔ بیٹوں نے اس کے مرنے کے بعد ایسا ہی کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو جمع کیا اور فرمایا تجھے کس چیزنے اس کام پر ابھارا تھا؟ اس نے کہا تیرے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی رحمت میں لے لیا۔“ مسائل: 1۔ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادرہے اور وہ دوبارہ پیدا کرے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی تخلیق اور موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ 4۔ کافرقیامت کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کا زمین و آسمان کو بغیر نمونے کے پیدا فرمانا : 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بغیر نمونے کے پیدا فرمایا ہے۔ (البقرۃ:117) 2۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بغیر نمونے کے پیدا کیا، اس کی نہ اولاد ہے اور نہ اس کی بیوی۔ (الانعام :101) 3۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ:9) 4۔ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کو دو دن میں پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ:12) 5۔ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے ساتوں آسمانوں کو اوپر تلے بنایا۔ (الملک :3) 6۔ وہ ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا۔ (البقرۃ:22)