وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا
اور یقیناً اگر ہم چاہیں تو ضرور ہی وہ وحی (واپس) لے جائیں جو ہم نے تیری طرف بھیجی ہے، پھر تو اپنے لیے اس کے متعلق ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہیں پائے گا۔
فہم القرآن : (آیت 86 سے 87) ربط کلام : الروح کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ لوگو تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ رسول محترم (ﷺ) جو بھی لوگوں کے سامنے بیان فرماتے تھے وہ من جانب اللہ تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔ اے نبی ! جو کچھ ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ ہم اسے واپس لے جانے میں پوری طرح قادر ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ لوگوں کو جو تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہاں یہ ثابت کیا ہے کہ جو کچھ رسول اکرم (ﷺ) کو وحی کی صورت میں علم دیا گیا ہے۔ وہ بھی من جانب اللہ ہے اور آپ کو منصب نبوت پر فائز کرنا اللہ تعالیٰ کا عظیم ترین فضل ہے۔ منصب نبوت اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا فضل ہے کہ دنیا کا کوئی منصب اور دولت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اے نبی ! یہ یاد رکھیں اللہ نے جو وحی کی صورت میں آپ پر اپنا فضل نازل کیا ہے۔ وہ اس پر پوری طرح قادر ہے کہ اپنے فضل کو واپس لے جائے۔ واپس لے جانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں آپ کوئی مددگار نہیں پا سکتے۔ وحی کا علم واپس لے جانے کا تذکرہ فرما کر بالواسطہ طور پر کفار کے اس الزام کی تردید کی گئی ہے۔ جو وہ آپ پر الزام لگاتے تھے کہ آپ قرآن اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں۔ پھر اس بات کی بھی نفی کی گئی کہ نبوت کسی شخص کے ذاتی کمال یا محنت کی وجہ سے عطا نہیں کی جاتی بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس پر وہ چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔ جس کے مقابلے میں تمام نعمتیں فروتر ہیں۔ ان الفاظ سے کفار کے اس فکر کی تردید ہوتی ہے جو کہا کرتے تھے کہ نبوت تو کسی مالدار اور بڑے آدمی کو ملنی چاہیے تھی۔ کفار کے فکر کی تردید کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح فرمادی ہے کہ میر اپیغمبر وحی پر بھی کسی قسم کا اختیار نہیں رکھتا۔ ﴿وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ﴾[ العکنبوت :48] ” اور تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اسے اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے ایسا ہوتا تو اہل باطل ضرور شک کرتے۔“ ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیلِ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بالْیَمِینِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِینَ فَمَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِینَ ﴾[ الحاقۃ: 44۔47] ” اگر یہ پیغمبر ہماری نسبت کوئی جھوٹی بات بنا لاتے تو ہم ان کا دائیاں ہاتھ پکڑ لیتے، پھر ان کی شہ رگ کاٹ ڈالتے تم میں سے کوئی ہمیں روکنے والا نہ ہوتا۔“ ﴿وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہُ لَہَمَّتْ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ أَنْ یُضِلُّوْکَ وَمَا یُضِلُّوْنَ إِلَّا أَنْفُسَہُمْ وَمَا یَضُرُّوْنَکَ مِنْ شَیْءٍ وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا۔﴾[ النساء :113] ” اور اگر تم پر اللہ کی مہربانی اور فضل نہ ہوتا تو ان میں سے ایک جماعت تمہیں بہکانے کا قصد کر ہی چکی ہوتی اور یہ اپنے سو ا (کسی کو) بہکا نہیں سکتے اور نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ اللہ نے تم پر کتاب اور دانائی نازل فرمائی ہے۔ تمہیں وہ باتیں سکھائی ہیں جو تم نہیں جانتے تھے اور تم پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔“ مسائل: 1۔ اگر اللہ چاہتا تو آپ (ﷺ) سے وحی سلب کرلیتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی کسی کا مددگار نہیں ہوتا۔ 3۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رحمت وفضل سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی کسی کا مددگار نہیں ہوسکتا : 1۔ اگر ہم چاہتے تو وحی سلب کرلیتے، پھر اللہ کے مقابلہ میں کوئی مددگار نہ پاتے۔ (بنی اسرائیل :86) 2۔ پھر آپ نہیں پائیں گے ہم پر کوئی مددگار۔ (بنی اسرائیل :75) 3۔ آپ ان کے لیے کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔ (النساء :145) 4۔ جن پر اللہ کی طرف سے لعنت ہو آپ ان کا کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔ (النساء :52) 5۔ جس کو اللہ گمراہ کرے اس کے لیے آپ کوئی راہ نہیں پائیں گے۔ (النساء :88)