وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ ۖ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا
اور جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں وہ منہ پھیر لیتا ہے اور اپنا پہلو دور کرلیتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت ناامید ہوجاتا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 83 سے 84) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت قرآن مجید ہے لیکن اس کے منکر اس سے فیض یاب ہونے کی بجائے اپنے آپ کو نقصان میں آگے ہی آگے لے جارہے ہیں اور اکثر انسانوں کی یہی کیفیت ہے کہ جب انہیں کوئی نعمت عطا کی جاتی ہے تو اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی بجائے کفرو شرک میں آگے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ انسان کی طبعی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ انسان صحت اور وسائل کے حوالے سے خوشحال ہوتا ہے۔ تو نا صرف اپنے رب سے ناطہ توڑ لیتا ہے بلکہ وہ اپنے رب کی نافرمانی اور بغاوت پر اتر آتا ہے۔ انسان کی اس کمزوری کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے ” یقیناً انسان سرکش ہوجاتا ہے۔ جب اپنے آپ کو مستغنی سمجھتا ہے۔ حالانکہ بالآخر اس نے اپنے رب کے پاس جانا ہے۔“ (العلق : 6تا8) انسان کو جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان اپنے رب سے پہلو پھیر لیتا ہے۔ جب اسے کسی مشکل کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے۔ اے پیغمبر ! فرما دیجیے کہ ہر شخص اپنی سوچ اور طریقے کے مطابق عمل کرتا ہے۔ تمہار ارب خوب واقف ہے۔ جو سیدھے راستے پر چلنے والاہے۔ یہاں پہلی آیت میں انسان کی افتادہ طبع کا ذکر کیا گیا ہے کہ خوشحال ہو تو اپنے رب کی ناقدری اور ناشکری کرتا ہے۔ پریشان حال ہو تو اپنے رب کی رحمت سے مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔ تنگدستی آئے تو کہتا ہے میں نے کبھی خوشحالی دیکھی ہی نہیں۔ بیمار ہوجائے تو صحت و تندرستی کا طویل دور بھول جاتا ہے۔ پریشانی میں مبتلا ہو تو اسے خوشی کا کوئی لمحہ یاد نہیں رہتا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد ہوا کہ انہیں آپ اپنے طریقے کے مطابق عمل کرنے دیں۔ کیونکہ ہر کوئی اپنے اپنے طریقے کو پسند کرتا اور اس پر عمل کرتا ہے۔ طریقہ سے مراد مذہبی رسومات اور انسان کا زندگی گزارنے کا انداز ہے۔ لیکن سب کو جان لینا چاہیے کہ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت کے راستہ پر ہے۔” شاکلہ“ کا معنیٰ ” نیت“ بھی کیا گیا ہے لہٰذا ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا۔ ﴿کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ ﴾[ المومنون :53] ” ہر گروہ کے پاس جو ہے وہ اسی میں مگن ہے۔“ (عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّمَا الْاَعْمَال بالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِاِمْرِئٍ مَّا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ الی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَہِجْرَتُہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ اِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُھَا اَوِامْرَاَۃٍ یَتَزَوَّجُھَا فَہِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ)[ رواہ البخاری : کتاب الایمان] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا تمام اعمال کا انحصار نیت پر ہے اور آدمی اپنی نیت کے مطابق ہی صلہ پائے گا۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے جس شخص نے دنیا کے فائدے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی۔“ مسائل: 1۔ انسان کو نعمت ملے تو منہ موڑ لیتا ہے۔ 2۔ انسان کو تکلیف پہنچے تو ناامید ہوجاتا ہے۔ 3۔ ہر انسان اپنے طریقہ پر کام کرتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ راہ راست پر کون ہے۔ تفسیر بالقرآن: اکثر لوگوں کی عادت : 1۔ جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو وہ اعراض کرتا ہے اور جب تکلیف پہنچے تو ناامید ہوجاتا ہے۔ (بنی اسرائیل :83) 2۔ جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں کھڑے، بیٹھے اور لیٹ کر پکارتا ہے جب ہم تکلیف دور کردیتے ہیں تو وہ ایسے ہوجاتا ہے جیسے اس نے تکلیف کے وقت ہمیں پکارا ہی نہیں۔ (یونس :12) 3۔ جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب اس کو اللہ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے تو اسے بھول جاتا ہے۔ (الزمر :8) 4۔ جب انسان کو ہماری طرف سے رحمت ملتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ (الشوریٰ :48)