وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا
اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے سراسر شفا اور رحمت ہے اور وہ ظالموں کو خسارے کے سوا کسی چیز میں زیادہ نہیں کرتا۔
فہم القرآن : ربط کلام : قرآن مجید کا دوسرا نام ” الفرقان“ ہے۔ جس کا معنیٰ ہے ” حق وباطل میں فرق کردینے والی کتاب“۔ جس طرح دلائل کے حوالے سے اس کے سامنے باطل نہیں ٹھہر سکتا۔ اسی طرح ہی اس کی غور و فکر کے ساتھ تلاوت کرنے سے کفرو شرک اور نفاق کی بیماریاں دل میں جگہ نہیں پا سکتیں۔ قرآن کے بے شما راوصاف حمیدہ اور اس کے دنیا وآخرت میں لاتعداد فوائد ہیں۔ ان فوائد میں سے دو کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید پر جو شخص حقیقی طور پر ایمان لائے گا۔ قرآن مجید اس کے لیے رحمت بن جائے گا۔ جو معاشرہ جنگ وجدال، برائی و بے حیائی اور ہر قسم کی ناہمواری کا شکار تھا۔ جو نہی قرآن کا راج نافذ ہوا۔ ہر طبقہ انسانی کو اپنے اپنے حقوق ملے اور معاشرہ مذہبی، معاشی اور معاشرتی بے اعتدالیوں سے پاک ہوا۔ جنت بے نظیر کا نمونہ بن گیا۔ حالانکہ قرآن مجید کے نزول سے پہلے اس معاشرہ کا یہ نقشہ تھا۔ تم آگ کے گڑھے کے اوپر کھڑے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں آگ میں گرنے سے بچالیا اور اللہ کے فضل وکرم سے تم آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔ (آل عمران :103) جہاں تک قرآن مجید کا ” شفاء“ ہونے کا تعلق ہے۔ اگر اس کے بتلائے ہوئے حفظان صحت کے اصولوں کا خیال رکھا جائے۔ تو آدمی جسمانی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ سورۃ المدثر کی ابتداء میں یہ تعلیم دی گئی کہ انسان کو لباس اور جسمانی طور پر پاک صاف رہنا چاہیے۔ (المدثر : 4،5) جسمانی پاکیزگی کا خیال رکھنے والوں کو اس شرف کے ساتھ نوازتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔“ (التوبہ :108) انسان کو جسمانی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ تو اس سے روحانی اور جسمانی طور پر تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح روح کو بھی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ جس سے نا صرف روحانی موت واقع ہوتی ہے بلکہ اس سے جسمانی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ عقیدہ توحید کی کمزوری کی وجہ سے آدمی بزدل، فکری انحطاط اور وہم کا شکار ہونے کی وجہ سے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ حسد ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو آدمی بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ کسی کے ساتھ بغض اپنی حد سے تجاوز کر جائے تو جنگ وجدال کی نوبت پیش آتی ہے۔ جس سے مالی جانی نقصان کے ساتھ پورا خاندان پر یشانیوں کا شکار رہتا ہے۔ غرض کہ روحانی بیماریاں دنیا وآخرت کے نتائج کے اعتبار سے زیادہ نقصان دہ اور خطر ناک ہوتی ہیں۔ یہاں صرف ” اَلشِّفَا“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جب کہ سورۃ یو نس میں فرمایا ہے۔ ﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ تْکُمْ مَوْعِظَۃٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ لِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [ یونس :57] ” اے لوگو! یقیناً تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی جو سینوں کے لیے سراسر شفاء اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) أنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ لِکُلِّ شَیءٍ صِقَالَۃٌ وَصِقَالَۃُ القُلُوْبِ ذِکْرُ اللّٰہِ وَمَا مِنْ شَیءٍ أنجٰی مِنْ عَذَاب اللّٰہِ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ قَالُوْاوَلا الجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ؟ قَالَ وَلَا أن یَضْرِبَ بِسَیْفِہِ حَتّٰی یَنْقَطِعَ )[ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر چیز کو صاف کرنے کے لیے ایک پالش ہوتی ہے۔ دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے۔ اللہ کے ذکر سے بڑھ کر عذاب سے نجات دلوانے والی کوئی چیز نہیں۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کی کیا اللہ کے راستے میں جہادبھی؟ آپ نے جواب دیا : ہاں ! چاہے کوئی تلوار کے ساتھ لڑے اور اس کی گردن تن سے جدا ہوجائے۔“ مسائل: 1۔ قرآن مجید مومنوں کے لیے شفار اور رحمت ہے۔ 2۔ ظالم لوگ خسارہ میں آگے ہی بڑھا کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : 1۔ قرآن مومنوں کے لیے باعث شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل :82) 2۔ اس کتاب میں کوئی شک نہیں ہے۔ (البقرۃ:2) 3۔ اس کتاب کی آیات محکم ہیں اور یہ حکیم وخبیر کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ (ھود :1) 4۔ یقیناً قرآن سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (بنی اسرائیل :9) 5۔ جن و انس مل کر بھی اس قرآن جیسا قرآن نہیں لا سکتے۔ (بنی اسرائیل :88) 6۔ اگر قرآن کو پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو وہ بھی اللہ کے ڈر کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ (الحشر :21)