سورة الإسراء - آیت 80

وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کہہ اے میرے رب! داخل کر مجھے سچا داخل کرنا اور نکال مجھے سچا نکالنا اور میرے لیے اپنی طرف سے ایسا غلبہ بنا جو مددگار ہو۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 80 سے 81) ربط کلام : سابقہ آیات میں مکہ معظمہ میں رہتے ہوئے بنی کریم (ﷺ) کی مشکلات کا ذکر ہوا اور اس کے بعد آپ (ﷺ) کو نماز اور تہجد کا حکم دیا۔ اب آپ کو ہجرت کی طرف اشارہ کیا گیا اور اس کی دعا سکھلائی گئی ہے۔ رسول معظم (ﷺ) نے مکہ میں نبوت کے تیرہ سال بڑی مشکلات سے گزارے۔ سجدے کی حالت میں آپ کی گردن پر اونٹ کی گندی اوجڑی رکھی گئی۔ کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں کا تین سال تک سوشل بائیکاٹ ہوا۔ ابو لہب کے بیٹوں نے آپ کی بیٹیوں کے ساتھ نکاح کی نسبت منقطع کی۔ آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔ آپ کی ننھی منی بیٹی حضرت فاطمہ (رض) کے چہرے پر ابوجہل نے تھپڑ مارا۔ آپ کے بیٹے کی وفات پر آپ کے پڑوسی اور حقیقی چچا ابو لہب نے خوشیاں منائیں۔ غرض یہ کہ دنیا کی کوئی پریشانی اور مشکل ایسی نہ تھی جس کا آپ نے ثابت قدمی کے ساتھ سا منا نہ کیا ہو۔ آپ (ﷺ) کی بیٹی، داماد اور ساتھیوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ آپ کے ساتھیوں کو سر بازار پیٹا گیا۔ حضرت بلال (رض) اور حضرت خباب (رض) کو آگ پر لٹایا گیا۔ حضرت یاسر (رض) کی بیوی کو کھلے بازار میں دواونٹوں سے باندھ کر دوٹکڑے کیا گیا۔ ان مظالم کے باوجود آپ کے ساتھیوں کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش واقع نہ ہوئی۔ جب مظالم کا سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچا اور مکہ والوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفر کی مہر ثبت کردی گئی تو یہ دعا اور خوشخبری نازل ہوئی کہ اے پیغمبر ! رات کی تایکیوں میں اپنے رب کے حضور یہ دعا کیجیے کہ اے میرے رب! مجھے جہاں اور جن حالات میں داخل فرماؤ اور جہاں سے مجھے نکالا جائے۔ سچائی کے ساتھ نکالنا اور میرے لیے اپنی طرف سے ہر حال میں مدد کا سامان مہیا فرما۔ اس دعا کے ساتھ ہی آپ کو خوشخبری دی گئی کہ آپ اعلان فرمائیں۔ حق پہنچ چکا اور باطل کا جانا ٹھہر چکا۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ باطل جایا ہی کرتا ہے۔ یہ خوشخبری اور اعلان اس وقت ہوا جب کوئی شخص آپ کی کامیابی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی جدوجہد اور دعا کے صلہ میں آپ کو وہ کامیابیاں عنایت فرمائیں کہ جو کسی نبی اور بادشاہ کے حصہ میں نہیں آئیں۔ ہجرت کے موقع پر کفار ہزار کوششوں کے باوجود آپ کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے میں ناکام ہوئے۔ بدر کے موقع پر قریش کے بڑے بڑے سردار جہنم رسید ہوئے۔ یہاں تک کہ مکہ فتح ہوا۔ آپ اس شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے کہ کسی کو سر اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔ آپ کی جان کے دشمن بیت اللہ کے صحن میں مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہو کر رحم کی اپیل کررہے تھے۔ اس طرح آپ کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق کے غلبہ کا اعلان اپنی سچائی، سطوت اور جلالت کے ساتھ نصف النہار کی طرح دشمن کی آنکھیں چندھیارہا تھا۔ ہجرت اور مشکلات سے نکلنے کی دعا : ﴿وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیْرًا [ بنی اسرائیل :80] ” اور دعا کیجیے میرے رب ! داخل کر مجھے سچائی کے ساتھ داخل کرنا اور مجھے سچائی کے ساتھ نکالنا اور بنا میرے لیے اپنی طرف سے ایسا غلبہ جو مددگار ہو۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ سے اچھائی طلب کرنی چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کے سوا غلبہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ 3۔ حق کے مقابلہ میں باطل کا ٹھہرنا محال ہے۔ 4۔ حق والے حق پر قائم رہیں تو بالآخر باطل مٹ جایا کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مددگار نہیں : 1۔ الٰہی اپنی طرف سے میرے لیے مددگار بنا۔ (بنی اسرائیل :80) 2۔ اللہ کی طرف سے ہی مدد حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران :126) 3۔ اللہ اپنی مدد کے ساتھ جس کی چاہتا ہے نصرت فرماتا ہے۔ (الروم :5) 4۔ اللہ حق والوں کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ (الحج :39) 5۔ اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہتر مدد کرنے والا ہے۔ (آل عمران :150) 6۔ وہ ذات جس نے آپ کی اور مومنوں کی مدد فرمائی۔ (الانفال :62)