وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا ۖ وَإِذًا لَّا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًا
اور بے شک وہ قریب تھے کہ تجھے ضرور ہی اس سرزمین سے پھسلا دیں، تاکہ تجھے اس سے نکال دیں اور اس وقت وہ تیرے بعد نہیں ٹھہریں گے مگر کم ہی۔
فہم القرآن : (آیت 76 سے 77) ربط کلام : نبی (ﷺ) کے خلاف کفار کا نظریاتی سازشوں اور شرارتوں کے بعد معاشرتی بائیکاٹ اور جلا وطن کردینے کی سازش کرنا۔ اہل مکہ اور ان کے گردونواح کے کفار نے آپ کو اعتقادی اور نظریاتی طور پر پسپا کرنے اور پھسلانے کی کوشش کی۔ جب اس میں سراسر ناکام ہوئے تو انہوں نے آپ (ﷺ)، آپ کے خاندان اور صحابہ کرام (رض) کا سوشل بائیکاٹ کیا۔ جس کی بناء پر تین سال تک آپ اور آپ کے ساتھی شعب ابی طالب میں محصور رہے۔ بائیکاٹ اس قدر سخت تھا کہ بعض اوقات بھوک کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں مکہ شہر میں سنائی دیتی تھیں لیکن کفار آپ (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کے پایہ استقلال میں لغزش پیدا نہ کرسکے۔ اس کے بعد انہوں نے آپ کو مکہ سے نکال دینے کے بارے میں کئی دفعہ سوچا۔ جب آپ تبلیغ کے لیے طائف تشریف لے گئے۔ تو واپسی پر مکہ والوں نے آپ کو شہر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک قریشی سردارجناب مطعم کو یہ ہمت دی کہ جس نے کافر ہونے کے باوجود مکہ کے چورا ہے میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ میں محمد کو شہر میں واپس لارہا ہوں۔ اگر کسی میں ہمت ہے تو مجھے آگے بڑھ کر روک لے۔ ممکن ہے اسی واقعہ کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہو۔ جس کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ قریب تھا کہ آپ کو مکہ سے دربدر کردیتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ناکام کردیا۔ اگر آپ کو مکہ سے نکال دیتے تو یہ لوگ بھی زیادہ دیر تک مکہ میں نہ ٹھہر پاتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انبیاء ( علیہ السلام) کے بارے میں ایک طے شدہ طریقہ ہے کہ کسی نبی کو اس کے شہر سے نکال دیا جائے تو وہ قوم خود بھی زیادہ دیر تک وہاں نہیں ٹھہر سکتی۔ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی شکل میں اس قوم کو تباہ کردیتا ہے۔ مکہ والوں نے جب آپ کو نبوت کے تیرھویں سال مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا۔ تو ٹھیک ایک سال کے بعد مکہ کے بڑے بڑے سردار غزوہ بدر میں مارے گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا ضابطہ نافذ کیا۔ جس کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہمارا ضابطہ اور طریقہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ حضرت ابراہیم کو ان کے باپ نے گھر سے نکل جانے کا کہا : ﴿قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آَلِہَتِی یَا إِبْرَاہِیْمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَہِ لَأَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِی مَلِیًّا۔﴾[ مریم :46] ” اس نے کہا اے ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہے ؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا اور تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہوجا۔“ حضرت لوط اور انکے ساتھیوں کو نکال دینے کی دھمکی : ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِی مِلَّتِنَا فَأَوْحٰی إِلَیْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِکَنَّ الظَّالِمِیْنَ ﴾[ ابراہیم :13] ” اور جو لوگ کافر تھے انہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ ہم تمہیں اپنے ملک سے باہر نکال دیں گے یا ہمارے مذہب میں داخل ہوجاؤ۔ تو پر ور دگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ہلاک کردیں گے۔“ مسائل: 1۔ کفار آپ (ﷺ) کو سرزمین حجاز سے نکالنے کے درپے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ 3۔ پہلے انبیاء کرام کیساتھ ایسا معاملہ پیش آتا رہا ہے۔ 4۔ نبی کریم (ﷺ) کے خلاف ہر وقت اہل مکہ سازشیں کیا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کی سنت اور طریقہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا : 1۔ آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ (بنی اسرائیل :77) 2۔ کیا وہ پہلوں کے انجام کا انتظار کرتے ہیں ؟ یہ اللہ کے طریقہ میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ (فاطر :43) 3۔ اللہ کے طریقہ میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ (الاحزاب :62) 4۔ آپ اللہ کے طریقہ کو تبدیل ہونے والا نہیں پائیں گے۔ (الفتح :23)