وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ لِمَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
اور اللہ کو چند گنے ہوئے دنوں میں یاد کرو، پھر جو دو دنوں میں جلد چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو تاخیر کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، اس شخص کے لیے جو ڈرے اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک تم اسی کی طرف اکٹھے کیے جاؤ گے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ کفّار نے منٰی کو تفریح کامیدان اور اس کے اجتماع کو ایک اجتماع عام کارنگ دے کر تفاخر کاذریعہ بنالیا تھا۔ شاعر اپنا اپنا کلام پیش کرتے جس میں عشق وعاشقی کی داستانیں اور اپنے آباء واجداد کے کارناموں کو اس طرح بڑھا چڑھا کر بیان کرتے جس میں دوسرے قبائل کی توہین پائی جاتی۔ بسا اوقات لوگوں میں تصادم کی صورت پید اہوجاتی۔ اللہ تعالیٰ نے چند دن کا لفظ استعمال فرما کر یہ احساس دلایا ہے کہ ان قیمتی ایام میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے تھا۔ تم نے انہیں بھی فخروغرور کاذریعہ بنا لیا ہے۔ حالانکہ تمہیں اپنے رب کا شکر گزار اور اسے کثرت کے ساتھ یاد کرنا چاہیے۔ جس کی توفیق سے تمہیں حج کی سعادت اور اس کے گھر کی حاضری کا شرف نصیب ہوا۔ یہاں اس فکری اختلاف کو بھی ختم کردیا گیا ہے جو منٰی میں قیام کے بارے میں پایا جاتا تھا۔ کچھ لوگ دو کے بجائے تین دن ٹھہرنا ضروری سمجھتے تھے اور وہ منٰی میں دو دن قیام کرنے والوں سے مجادلہ اور تکرار کرتے کہ ہم تم سے بہتر ہیں۔ اس طرح دویوم قیام کرنے والے تین دن ٹھہرنے کو برا سمجھتے۔ یہاں یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ تم چاہو تو تین دن ٹھہرو نہیں تو دو دن۔ دونوں میں سے کوئی ایک مدت ٹھہرنے والوں پر کوئی گناہ نہیں۔ یہ اجر تو اس شخص کے لیے ہے جو فخر و غرور اور دنیاوی رسومات سے پرہیز کرتا ہے اور اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پایا جاتا ہے۔ یاد رکھو جس طرح تم یہاں اکٹھے ہوئے ہو ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے جب تمام کے تمام رب کبریا کی عدالت میں دست بستہ جمع کیے جاؤ گے۔ وہاں تقو ٰی اور رب کی یاد ہی کام آئے گی۔ مسائل : 1۔ ایام تشریق میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ 2۔ منٰی میں دو یا تین دن ٹھہرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے وہ سب کو اکٹھا کرنے والا ہے۔