رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْ ۖ إِن يَشَأْ يَرْحَمْكُمْ أَوْ إِن يَشَأْ يُعَذِّبْكُمْ ۚ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا
تمھارا رب تمھیں زیادہ جاننے والا ہے، اگر وہ چاہے تو تم پر رحم کرے، یا اگر چاہے تو تمھیں عذاب دے اور ہم نے تجھے ان پر کوئی ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا۔
فہم القرآن : (آیت 54 سے 55) ربط کلام : اس سے پہلے داعی کو صبر واستقامت اور حسن گفتار کا حکم دیا گیا ہے۔ اب دوسرے انداز میں داعی کو یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس نے اپنے رسول کو الداعی بناکر بھیجا ہے۔ کسی پر چوکیدار بنا کر مبعوث نہیں فرمایا۔ لہٰذا داعی کو لڑنے جھگڑنے کی بجائے اپنا کام اچھے انداز میں کرتے رہنا چاہیے۔ اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا کہ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ کس پر کرم فرمانا چاہیے اور کس کو اس کے گناہوں اور جرائم کی سزا ملنی چاہیے۔ آپ کا رب زمینوں آسمانوں کی ہر چیز کی پوری طرح خبر رکھے ہوئے ہے۔ اسی نے بعض انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت عنایت فرمائی۔ اس کا ارشاد ہے کہ ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔ اس فرمان میں ہدایت کا لفظ استعمال کرنے کی بجائے ” رحم“ کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ گناہ سے بچ کر نیکی کا راستہ اختیار کرنا صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مہربانی سے ممکن ہوا کرتا ہے۔ اس حقیقت کی ترجمانی حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان الفاظ میں کی تھی۔ جب ایک مدت کے بعد جیل کی کال کوٹھری سے نکلے اور ہر طرف سے ان کو خراج تحسین پیش کیا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ عزیزمصر کی بیوی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئی۔ ﴿قَالَتِ امْرَأَۃُ الْعَزِیْزِ الْاٰنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُہُ عَنْ نَفْسِہِ وَإِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ ﴾[ یوسف :51] ” عزیز مصر کی بیوی نے کہا اب تو حق واضح ہوا۔ میں نے ہی اسے اپنی طرف ورغلانے کی کوشش کی تھی اور یقیناً وہ سچے لوگوں میں سے ہے۔“ اس موقعہ پر پوری عاجزی کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا تھا : ” اور میں اپنے آپ کو پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امارہ برائی ہی سکھاتا رہتا ہے۔ مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے، بے شک میرا پروردگار بخشنے والا، مہربان ہے۔“ [ یوسف :53] یہی حقیقت رسول اکرم (ﷺ) کو مخاطب کرتے ہوئے داعی حق کو سمجھائی جا رہی ہے کہ برائی کے مقابلے میں صبر کرنا اور ہر حال میں اچھی بات کہنی چاہیے۔ داعی کو یہ حقیقت بھی ہمیشہ اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ وہ جانتا ہے کو ن، کس نیت کے ساتھ حق کی مخالفت کررہا ہے۔ گویا یہ بات بھی ایک لحاظ سے داعی کے لیے تسکین کا باعث ہے۔ آخر میں یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے بعض انبیاء کو ایک دوسرے پر فضلیت عنایت فرمائی۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک داعی کو اس بات سے بے پرواہ ہو کر دین حق کی تبلیغ کرنا ہے۔ کہ اس کی بات قبول کرنے والے کتنے لوگ ہیں ؟ کیونکہ کئی انبیاء ایسے تھے کہ جن کی بات کو بہت سے لوگوں نے قبول کیا اور کچھ ایسے تھے جن کے اخلاص اور محنت کے باوجود لوگوں نے ان کی دعوت کو مسترد کردیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر دو باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی داعی کو وسائل کی کم مائیگی کی طرف دھیان نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ وسائل کی دستیابی کی صورت میں دعوت حق کو پذیرائی ہوجائے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے وقت کے پیغمبر اور بادشاہ ہونے کے باوجود سب لوگوں کو عقیدہ توحید منوانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا اس حوالے سے بھی ذکر کیا کہ اہل مکہ اور یہودی یہ پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے؟ کہ بال بچہ بھی رکھتا ہے اور کاروبار بھی کرتا ہے۔ ان کے بقول رسول تو تارک الدنیا شخص ہونا چاہیے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ناصرف وقت کے صاحب کتاب رسول تھے بلکہ بادشاہ بھی تھے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے احوال کو اچھی طرح جانتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ 3۔ بعض انبیاء (علیہ السلام) کو بعض پر فضیلت دی گئی۔ 4۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو زبورعطا کی گئی۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ جسے چاہے عذاب دے، جسے چاہے معاف کرے : 1۔ تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے اگر چاہے تو رحم کرے، اگر چاہے تو عذاب دے۔ (بنی اسرائیل :54) 2۔ اللہ جسے چاہے عذاب دے اور جس پر چاہے رحم کرے تم اسی کی طرف پھیرے جاؤ گے۔ (العنکبوت :21) 3۔ اللہ جسے چاہے معاف کر دے جسے چاہے عذاب دے، اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (آل عمران :129) 4۔ جسے چاہے بخش دے جسے چاہے عذاب دے زمین و آسمان کی بادشاہت اور جو کچھ ان میں ہے اللہ کا ہے۔ (المائدۃ:18)