سورة الإسراء - آیت 45

وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُورًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب تو قرآن پڑھتا ہے ہم تیرے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ایک پوشیدہ پردہ بنا دیتے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 45 سے 46) ربط کلام : قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا عظیم ذکر اور اس کی حمد کی ایک صورت ہے۔ لیکن قرآن مجید کی تلاوت کی جائے توکفار کے لیے ایک پردہ حائل ہوجاتا ہے اور وہ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ قرآن مجید انسان کے دل کے لیے ایک بارش کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر اس بارش کا اثر اسی دل پر ہوتا ہے۔ جو کفر و نفاق اور ہر قسم کی عصبیت سے صاف ہوتا ہے۔ اس صفت کا حامل شخص جب قرآن مجیدکی تلاوت کرتا اور سنتا ہے تو اس کے ایمان میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس پر ایمان لانے والے کا دل نرم اور اس کا اپنے رب پر توکل بڑھ جاتا ہے۔ (الانفال :2) اس کے برعکس جس کے دل میں کفر و نفاق اور تعصب ہوتا ہے۔ اس پر قرآن مجید کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ کفر و نفاق اور تعصب کے پردے قرآن اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں۔ جس وجہ سے اس کے کفر و نفاق میں اور زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس طرح بارش کو ڑا کرکٹ پر ہو تو تعفن میں تیزی آجاتی ہے۔ یہی بارش فصلوں پر ہو تو وہ لہلہانے لگتی ہیں۔ اس سے پھول مہکتے ہیں، درختوں کے سبزے میں اضافہ ہوتا ہے، ہر چیز کا چہرہ گرد و غبار سے دھل جاتا ہے اور ہر چیز ہشاش بشاش نظر آتی ہے۔ یہی قرآن مجید کی تاثیر ہے کہ وہ کفر و نفاق سے پاک دل میں ایمان کے اضافے کا باعث بنتا ہے۔ لیکن کافر کے کفر اور مشرک کے شرک و نفاق کی وجہ سے قرآن اور ان کے درمیان پردے حائل ہوجاتے ہیں۔ جس کے بارے میں مشرک ان الفاظ میں اقرار کرتے ہوئے کہتے تھے کہ جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے۔ اس سے ہمارے دل پردے میں، ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ لہٰذا تم اپنا کام کیے جاؤ اور ہم اپنا کام کیے جائیں گے۔ (حٰم السجدۃ:5) اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ہے ہم نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیا ہے کہ وہ اس قرآن کو سمجھ ہی نہ سکیں۔ ان کے کانوں میں بوجھ ہے، جب آپ قرآن میں اپنے اکیلے رب کا ذکر کرتے ہیں تو مشرک بدک کر پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔ یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس لیے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف منسوب فرماتا ہے۔ مسائل: 1۔ جب آپ (ﷺ) قرآن پڑھتے ہیں تو آپ کے اور کفارکے درمیان پردہ حائل کردیا جاتا۔ 2۔ اللہ کی توحید کا ذکر سن کر کفار پیٹھ پھیر جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: کفار کے دل، کانوں اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے : 1۔ ہم نے ان کے دلوں اور کانوں پر پردہ ڈال دیا ہے کہ وہ اسے سمجھیں۔ (بنی اسرائیل :46) 2۔ وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانون پر بوجھ ہے۔ (حٰم السجدۃ :44) 3۔ ہم نے ان کے دلوں پر پردہ اور ان کے کانوں پر بوجھ ڈال دیا ہے۔ (الانعام :25) 4۔ جب ان کے سامنے ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ تکبر سے منہ موڑتے ہیں گویا کہ انھوں نے سنا ہی نہیں ان کے کانوں میں بوجھ ہے۔ (لقمان :7) 5۔ ہم نے ان کے دلوں پر پردہ اور کانوں میں بوجھ پیدا کردیا وہ ہدایت نہیں پاتے۔ (الکہف :57) 6۔ اللہ نے کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ (البقرۃ:7)