تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا
ساتوں آسمان اور زمین اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ بھی جو ان میں ہیں اور کوئی بھی چیز نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ بے شک وہ ہمیشہ سے بے حد بردبار، نہایت بخشنے والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : مشرک اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک بنا کر اللہ تعالیٰ کی توہین کرتا ہے۔ اس طرح وہ نہ صرف سنگین جرم کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ وہ نظامِ کائنات سے بغاوت کا راستہ اختیار کرتا ہے کیونکہ پوری کائنات اپنے خالق و مالک کے تابع فرمان اور اس کی حمد سرا ہے۔ قرآن مجید سب لوگوں بالخصوص کافر، مشرک اور نافرمانوں کے سامنے یہ حقیقت عیاں کرتا ہے۔ اے رب کے نافرمانو! تم جس طرح چاہو نافرمانی کرو۔ مگر یہ یادرکھنا کہ جس دھرتی کے اوپر اور جس آسمان کے نیچے اور جس فضا میں تم رہتے ہو۔ وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش بیان کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ساتوں آسمان اور زمینیں اور جو کچھ ان میں ہے وہ اپنے خالق و مالک کو بہترین الفاظ اور انداز کے ساتھ یاد کر رہے ہیں۔ لیکن انسان ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔ اگر حمد و ثناء کی فضا میں انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اپنے رب کی اس کے فرمان کے مطابق حمد و ثناء نہیں کرتا اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اسے مہلت دئیے ہوئے ہے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی قدرت اور دسترس سے باہر ہے۔ ہرگز نہیں یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور بخشش کا نتیجہ ہے کہ وہ انسان کو مہلت پہ مہلت دئیے جاتا ہے۔ جہاں تک کائنات کی ہر چیز کا اپنے رب کی حمد و ثناء کے پڑھنے کا تعلق ہے۔ قرآن مجید واضح الفاظ میں یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کے ساتھ اس کے حضور سجدہ بھی کرتی ہے۔ حتیٰ کہ ان کے سائے بھی اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کا اقرار کسی نہ کسی حد تک موجودہ سائنسدانوں نے کرلیا ہے ان کا کہنا ہے کہ درخت بھی ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ ایمان کی حلاوت کے لیے اپنے رب کا ارشاد بار بار پڑھیے : ﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہُ مَنْ فِی السَّمٰوٰاتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَکَثِیْرٌ مِنَ النَّاسُ ﴾[ الحج :18] ” کیا تم دیکھتے نہیں؟ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور لوگوں کی ایک کثیر تعداد اللہ کے حضور سربسجود ہوتی ہے۔“ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ اَتَدْرِیْ اَیْنَ تَذْھَبُ ھٰذِہٖ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ قَالَ فَاِنَّھَا تَذْھَبُ حَتّٰی تَسْجُدَتَحْتَ الْعَرْشِ فَتَسْتَاْذِنُ فَیُؤْذَنُ لَھَا وَیُوْشِکُ اَنْ تَسْجُدَ وَلَاتُقْبَلُ مِنْھَا وَتَسْتَأْذِنُ فَلَا یُوؤذَنُ لَھَا وَیُقَالُ لَھَا اِرْجِعِیْ مِنْ حَیْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِھَا فَذَالِکَ قَوْلُہُ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا قَالَ مُسْتَقَرُّھَا تَحْتَ الْعَرْش) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب وکان عرشہ علی الماء ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کی‘ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت چاہے لیکن اس کو اجازت نہ ملے بلکہ اسے حکم ہو کہ جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانہ عرش کے نیچے ہے۔“ مسائل: 1۔ ساتوں آسمان اور ساتوں زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ 2۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن لوگ نہیں سمجھتے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ بہت برد بار اور بخشنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے : 1۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ اس میں ہے اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ (بنی اسرائیل :44) 2۔ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ (الحدید :1) 3۔ اللہ کے عرش کو اٹھانے والے فرشتے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ (المومن :7) 4۔ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف :206) 5۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کیا اور وہ بھی صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے۔ (الانبیاء :79)