وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک، اس کے متعلق سوال ہوگا۔
فہم القرآن : ربط کلام : معاملات میں درستگی کا حکم دینے کے بعد بات چیت، اخلاق اور خیالات میں پاکیزگی کا حکم دیا ہے۔ دانش مندی اور حقیقی دینداری کا تقاضا ہے کہ مسلمان ان باتوں اور کاموں کے پیچھے نہ پڑے۔ جس سے آدمی کے اخلاق اور دین میں نقص واقع ہو۔ اس نقصان سے مسلمان کو بچانے کے لیے یہ حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے کان، آنکھیں اور دل مسؤل ٹھہرائے گئے ہیں۔ اس لیے مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ دانستہ طور پر اپنے کانوں سے وہ بات سننے کی کوشش نہ کرے جس بات میں شریعت کی خلاف ورزی پائی جا رہی ہو۔ اپنی آنکھوں کو ان چیزوں سے پھیرلے جن کو دیکھنے سے روکا گیا ہے۔ ہر شخص کو یہ حقیقت دل میں بٹھا لینی چاہیے کہ ایک وقت آئے گا کہ جب انسان کے اعضاء اور اس کا پورا جسم اس کے خلاف گواہی دے گا۔ ﴿حَتّٰی إِذَا مَا جَاءُ وْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَأَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ وَقَالُوْا لِجُلُوْدِہِمْ لِمَ شَہِدْتُمْ عَلَیْنَا قَالُوْا أَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِی أَنْطَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَہُوَ خَلَقَکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ﴾[ حٰمٰ السجدۃ: 20۔21] ” یہاں تک کہ جب سب اللہ کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کے کان، آنکھیں اور جسم ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گے اور وہ اپنے جسم سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی وہ کہیں گے کہ جس اللہ نے سب چیزوں کو بولنا سکھایا ہے اس نے ہم کو بھی گویائی دی اور اسی نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور اسی کی طرف تمھیں لوٹ کر جانا ہے۔“ جہاں تک دل کا معاملہ ہے اس میں پیدا ہونے والے برے خیالات کو رب کریم نے معاف کردیا ہے۔ البتہ شرکیہ اعتقاد، حسد، بغض اور کفریہ خیالات دل میں جمائے رکھے تو ان کے بارے میں شدید پکڑ ہوگی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) إِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ لِیْ عَنْ أُمَّتِیْ مَا وَسْوَسَتْ بِہِ صُدُورُہَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَکَلَّمْ )[ رواہ البخاری : کتاب العتق، باب الْخَطَإِ وَالنِّسْیَانِ فِی الْعَتَاقَۃِ وَالطَّلاَقِ] ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے در گزر فرما دیا ہے۔ جب تک ان خیالات پر عمل نہ کریں یا ان کے مطابق کلام نہ کرلیں۔“ (عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ (رض) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ) [ رواہ مالک وأحمد ] ” علی بن حسین (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کسی بھی شخص کا بے مقصد باتوں کو چھوڑ دینا اس کے اچھے اسلام کی دلیل ہے۔“ (عَنْ أُمِ مَعْبَدٍ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ اَللّٰہُمَّ طَہِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاِقِ وَعمَلِیْ مِنَ الرِّیَاءِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃَ فَإِنَّکَ تَعْلَمْ خَائِنَۃَ الْأَعَیْنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرِ) [ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر] ” حضرت ام معبد (رض) بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو دعا کرتے ہوئے سنا آپ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریاء کاری سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھوں کو خیانت سے محفوظ فرما۔ یقیناً آپ خیانت کرنے والی آنکھ اور دل کے خیالات سے واقف ہیں۔“ مسائل: 1۔ ایسی بات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے جو انسان کے احاطہ علم میں آنے والی نہ ہو۔ 2۔ قیامت کے دن کان، آنکھ اور دل کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن اعضاء سے سوال اور ان کا جواب : 1۔ قیامت کے دن کان، آنکھ اور دل سے سوال کیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل :36) 2۔ قیامت کے دن مجرموں کے خلاف ان کے کان، آنکھیں اور جسم گواہی دیں گے۔ (حٰم السجدۃ:20) 3۔ مجرموں کے ہاتھ اور پاؤں گواہی دیں گے۔ (یٰس :65) 4۔ قیامت کے دن ان کی زبانیں، ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ (النور :24)