وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا
اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کا سوال ہوگا۔
فہم القرآن : ربط کلام : حیا اور جان کے تحفظ کے بعد کمزور طبقہ کے مالی حقوق کے تحفظ کا حکم : قرآن مجید معاشرے کے مظلوم طبقات کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے یہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ جائز طریقے کے سوا یتیم کے مال کے قریب نہیں جانا چاہیے۔ یہاں تک یتیم اپنی جوانی کو پہنچ جائے۔ یتیم کو مالی تحفظ دینے کے بعد ہر کسی کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے کیے ہوئے عہد کی پاسداری کرے۔ کیونکہ عہد کے بارے میں اللہ کے ہاں سوال کیا جائے گا۔ شریعت میں انسان اس وقت تک یتیم ہوتا ہے جب تک بالغ نہ ہوجائے۔ بلوغت سے پہلے کی عمر بچپن میں شمار ہوتی ہے۔ اس عمر میں کاروبار کو سمجھنا اور چلانا بچے کے لیے بالخصوص یتیم کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا قریبی یا کوئی دوسرا آدمی کاروبار چلائے گا۔ یہاں یتیم کے کفیل کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کوشش کرے کہ حتی المقدور یتیم کا مال نہ کھائے۔ اگر اس کا اپنا کوئی معقول روز گار نہیں تو وہ گزران کی حد تک یتیم کے مال سے کھا سکتا ہے۔ جس کے لیے احسن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی یتیم کا کفیل اس طریقہ اور حساب سے اس کے مال سے استفادہ کرے کہ دیانت و ایمانداری کے ساتھ ساتھ اس کی عزت پر کوئی حرف نہ آنے پائے۔ اس آیت مبارکہ میں دوسرا حکم ایفائے عہد کا دیا ہے۔ یہ عہد ایک فرد کا دوسرے فرد کے ساتھ اور ایک قوم کا دوسری قوم کے ساتھ ہوسکتا ہے جس کی انفرادی اور اجتماعی طور پر پاسداری ہونی چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر کسی سے عہد کے بارے میں پوچھ گچھ کرنی ہے۔ اس عہد سے مراد وہ عہد بھی لیا جا سکتا ہے جو روز آفر ینش اللہ تعالیٰ نے بنی آدم سے یہ کہہ کرلیا تھا کہ کیا میں تمہارا رب ہوں یا نہیں ؟ اس کی تفصیل جاننے کے لیے سورۃ الاعراف آیت 172کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ اس عہد کی پاسداری نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور شرک کرنا ہے۔ ایک دوسرے سے کیے ہوئے عہد کو توڑنا اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا گناہ ہے۔ دنیا میں بھی عہد شکنی کرنے والے کی عزت کو شدید دھچکا لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی نماز، حج اور ہر قسم کی نیکی لوگوں کی نظروں میں طعنہ بن جاتی ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) اَ لَا تَسْتَعْمِلُنِیْ قَالَ فَضَرَبَ بِیَدِہٖ عَلٰی مَنْکِبِیْ ثُمَّ قَالَ یَا اَبَا ذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَاِنَّھَا اَمَانَۃٌ وَاِنَّھَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ خِزْیٌ وَنَدَامَۃٌ اِلَّامَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّہَا وَاَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ فِیْھَاوَفِی رِوَایَۃٍ قَالَ لَہٗ یَا اَبَاذَرٍّ اِنِّیْ اَرَاکَ ضَعِیْفًا وَاِنِّیْ اُحِبُّ لَکَ مَا اُحِبُّ لِنَفْسِیْ لَا تَأَمَّرَنَّ عَلَی اثْنَیْنِ وَلَا تَوَلَّیَنَّ مَالَ یَتِیْم) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب کَرَاہَۃِ الإِمَارَۃِ بِغَیْرِ ضَرُورَۃٍ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی‘ کہ اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! آپ مجھے کوئی عہدہ کیوں نہیں عنایت فرماتے ؟ آپ نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھتے ہوئے فرمایا اے ابوذر! یقیناً تو کمزور آدمی ہے اور یہ عہدہ امانت ہے جو قیامت کے دن رسوائی اور ذلت کا باعث ہوگا۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے حقوق کو پورا کیا اور ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نبھایا۔ ایک روایت میں ہے۔ آپ نے اس سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا : اے ابوذر! میرے خیال میں تم کمزور آدمی ہو۔ میں تیرے لیے وہی کچھ پسند کرتا ہوں‘ جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ دو آدمیوں کی بھی ذمّہ داری نہ اٹھانا اور نہ ہی یتیم کے مال کی ذمّہ داری لینا۔“ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ عِنْدَ اِسْتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِوَفِیْ رَوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدَرِ غَدْرِہٖ اَ لَاوَلَا غَادِرَ اَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ اَمِیْرِ عَامَّۃٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الجہاد والسیر، باب تحریم الغدر] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی مقعد کے نزدیک جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا‘ جو اس کی عہد شکنی کے مطابق بلند کیا جائے گا۔ خبردار! سربراہ مملکت کی عہد شکنی سب سے بڑی ہوتی ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ (ﷺ) إِلَّا قَالَ لَا إِیمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دینَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ)[ رواہ احمد] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (ﷺ) نے جب بھی ہمیں خطبہ دیا تو فرمایا جو بندہ امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو شخص وعدہ پورا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔“ (عَنْ سَہْلٍ (رض) قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِی الْجَنَّۃِ ہَکَذَا وَأَشَار بالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی، وَفَرَّجَ بَیْنَہُمَا شَیْئًا )[ رواہ البخاری : باب فضل من یعول یتیما] ” حضرت سہل (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ (ﷺ) نے سبابہ اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور ان کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔“ مسائل: 1۔ یتیم کے مال کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے۔ 2۔ یتیم کے مال میں تصرف کرتے ہوئے احسن انداز اپنانا چاہیے۔ 3۔ وعدہ کی پاسداری کرنی چاہیے۔ 4۔ عہد و پیمان کے متعلق پوچھا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: یتیم کے مال اور عہد کی پاسداری کا حکم : 1۔ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر احسن طریقہ سے اور وعدہ وفا کرو۔ (بنی اسرائیل :34) 2۔ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔ (الانعام :152) 3۔ یتیموں کو ان کے مال واپس کرو۔ ناپاک کو پاک سے نہ ملاؤ۔ (النساء :2) 4۔ جو لوگ یتیم کا مال ظلم سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر تے ہیں۔ (النساء :10) 5۔ عہد کو پورا کرو یقیناً عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل :34) 6۔ اللہ کے وعدے کو پورا کرو۔ (النحل :91) 7۔ نیک لوگ جب عہد کرتے ہیں تو عہد کی پاسداری کرتے ہیں۔ (البقرۃ:177) 8۔ جو اللہ کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں اور قسموں کو تھوڑی قیمت میں بیچ دیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ (آل عمران :77) 9۔ تم میرے وعدے کو پورا کرو میں تمھارے وعدے کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔ (البقرۃ:40)