وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا
اور اس جان کو قتل مت کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور جو شخص قتل کردیا جائے، اس حال میں کہ مظلوم ہو تو یقیناً ہم نے اس کے ولی کے لیے پورا غلبہ رکھا ہے۔ پس وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے، یقیناً وہ مدد دیا ہوا ہوگا۔
فہم القرآن : ربط کلام : قتل اولاد، زنا اور عفت گری سے روکنے کے بعد انسانی جان کے قتل سے روکا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ساری مخلوق میں انسان کو ظاہری اور جوہری صلاحیتوں کے لحاظ سے بہترین تخلیق فرما کر ارشاد فرمایا کہ میں نے انسان کو بحر و بر میں عزت و عظمت عنایت فرمائی ہے۔ (بنی اسرائیل :70) اس کے مقام و مرتبہ اور ہر طرح سے امن و امان قائم رکھنے کے لیے اس کو شرم و حیا اور عفت و عصمت کی رکھوالی کا حکم دیا اور یہ بھی حکم صادر فرمایا ہے کہ نفس انسانی کا احترام اور تحفظ ہونا چاہیے۔ کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسرے کو جائز حق کے بغیر قتل کرے۔ (المائدہ :32) میں ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی ایک کو قتل کیا گویا کہ اس نے سب لوگوں کو مار ڈالا اور جس نے کسی جان کو تحفظ دیا۔ گویا کہ اس نے سب لوگوں کو تحفظ فراہم کیا اور جس شخص کو ناحق قتل کیا گیا اس کے وارثوں کو پورا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اس کا بدلہ لیں یا معاف کردیں۔ یہ اختیار اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے۔ لہٰذا معاشرہ اور اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ بدلہ لینے میں اس کی مدد کرے۔ البتہ بدلہ لینے کی صورت میں انہیں کسی قسم کی زیادتی کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ زیادتی سے مراد ایک کے بدلے زیادہ لوگوں کو قتل کرنا۔ لاش کا مثلہ کرنا، اصل قاتل کی بجائے کسی دوسرے کو قتل کرنا، قتل کرتے وقت اذیتیں دینا۔ یاد رہے کہ مقتول کے وارث دیت لیں یا معاف کرسکتے ہیں۔ لیکن قصاص خود نہیں لے سکتے۔ قصاص حکومت کے ذریعہ ہی لیا جا نا چاہیے۔ بصورت دیگر قتل در قتل کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ قرآن مجید نے لوگوں کو ہر قسم کی قتل و غارت سے منع کرتے ہوئے ﴿اِلَّا بالْحَقِّ ﴾کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس کا معنٰی ہے کہ کچھ ایسے مجرم ہیں جن کی جان کو تحفظ نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ ایسے لوگ معاشرے کی حیا اور امن و امان کے دشمن ہیں۔ انہیں کھلا چھوڑنا ملک و ملت کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وہ درج ذیل پانچ جرم ہیں۔ 1۔ قتل کے بدلہ قتل کرنا البتہ مقتول کے وارث کو دیت لینے اور معاف کردینے کا پورا پورا حق ہے۔ یہ حق وارث کے بغیر کسی شخص اور حکومت کو حاصل نہیں ہوگا۔ 2۔ شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا۔ 3۔ اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والا بھی قتل کیا جائے گا۔ 4۔ دین اسلام سے مرتد ہونے والا واجب القتل ہوگا اس میں گستاخ رسول (ﷺ) بھی شامل ہے۔ 5۔ راہزنی اور اسلامی حکومت میں دنگاو فساد برپا کرنے والا بھی تہ تیغ کیا جائے گا۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ لَزَوَال الدُّنْیَا أَہْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدیات، باب ماجاء فی تشدید قتل المؤمن ] ” عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی تباہی ایک مسلمان کو قتل کرنے سے زیادہکم درجہ رکھتی ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) أَنَّہُ قَالَ الْکَبَائِرُ الإِشْرَاک باللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ أَوْ قَتْلُ النَّفْسِ شُعْبَۃُ الشَّاکُّ وَالْیَمِیْنُ الْغَمُوْسُ) [ رواہ أحمد ] ” عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا یا کسی جان کو قتل کرنا۔ کبیرہ گناہ ہیں راوی کو اس میں شک ہے، جھوٹی قسم کھانا۔“ بھی ان میں شامل ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسُعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقتِاَلُہٗ کُفْرٌ ) [ رواہ البخاری : باب اتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ مِنَ الإِیمَانِ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا‘ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔“ مسائل: 1۔ کسی کو ناحق قتل نہیں کرنا چاہیے۔ 2۔ مقتول کے وارث کو قصاص لینے کا حق حاصل ہوگا۔ 3۔ مقتول کے وارث کو حد سے نہیں بڑھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: قتل کا گناہ : 1۔ جس جان کو اللہ نے تحفظ دیا ہے اسے ناحق قتل نہیں کرنا چاہیے۔ (بنی اسرائیل :32) 2۔ جس نے کسی کو بغیر حق کے قتل کردیا گویا کہ اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا۔ (المائدۃ:32) 3۔ قابیل کو اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر ابھارا۔ اس نے قتل کردیا پس خسارہ پانے والا ہوا۔ (المائدۃ:30) 4۔ جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (النساء :93) 5۔ کسی کو ناحق قتل نہ کرو۔ (الانعام :151)