وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا
اور زنا کے قریب نہ جاؤ، بے شک وہ ہمیشہ سے بڑی بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : ضبط اولاد کے مصنوعی اور غیر شرعی طریقوں سے بدکاری کو رواج ملتا ہے۔ لہٰذا زنا کے راستوں اور طریقوں سے منع کیا گیا ہے۔ زنا کے نتیجہ میں حمل ٹھہر جائے تو بچہ ضائع کردیا جاتا ہے۔ اس لیے قتل اولاد سے منع کرنے کے بعد زنا سے بھی منع کیا گیا ہے۔ دین اسلام نہ صرف زنا سے منع کرتا ہے بلکہ وہ زنا کی قربتوں اور راستوں سے بھی روکتا ہے اور زنا کو بے حیائی اور برا راستہ قرار دیتا ہے۔ اس لیے جن راستوں اور واسطوں کے ذریعے آدمی زنا کا مرتکب ہوتا ہے۔ ان سے اجتناب کرنے کا سختی کے ساتھ حکم دیا گیا ہے۔ زنا ایسا برا عمل ہے جو آدمی سے یکدم سرزد نہیں ہوتا بلکہ پہلے کچھ اقدامات اور حرکات کرنا پڑتی ہیں۔ پہلے ایک دوسرے کو دیکھا دیکھی ہوتی ہے، پھر قربت کے راستے تلاش کیے جاتے ہیں۔ بسا اوقات ایک دوسرے کو دیکھے بغیر صرف آواز کے جادو سے متاثر ہو کر مرد عورت کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ دین نے اس لیے غیر محرم مرد اور عورت کو ایک دوسرے کو ارادتًا دیکھنے سے منع کیا ہے حتیٰ کہ عورتوں کو حکم دیا کہ وہ بازار میں نکلیں تو ان کا چلنے کا انداز شریفانہ ہونا چاہیے۔ اگر کسی غیر محرم سے بات کرنا ناگزیرہو تو عورت کی آواز میں لوچ نہیں ہونی چاہیے۔ (الاحزاب :32) گانا بجانا اور موسیقی کی آواز بھی آدمی کے دل میں بے حیائی پیدا کرتی ہے اس لیے ایسی تمام چیزوں کے استعمال اور ان کے قریب جانے سے روک دیا گیا ہے تاکہ مسلمان معاشرہ شرم و حیا کا پیکر بن جائے۔ اسی بنا پر حکم دیا ہے کہ زنا کے قریب تک نہ جانا کیونکہ یہ بے حیائی کے ساتھ بدترین راستہ ہے۔ اس راستہ پر چل کر آدمی کا مال، عزت، یہاں تک کہ قتل کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔ یہ ایسا برا راستہ ہے کہ آدمی کے کردار پر ہمیشہ کے لیے بد نما دھبہ لگ جاتا ہے بالخصوص بدکاری کرنے والی عورت نہ صرف اپنے والدین، بہن بھائیوں، خاندان کے لیے عار کا سبب بنتی ہے بلکہ شادی کے بعد بھی یہ حرکت اس کی اولاد کے لیے مستقل طعنہ بنا رہتا ہے۔ غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں اگر اس فعل کے نتیجہ میں حمل ٹھہر جائے تو بچہ ضائع کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہوتا جو واضح طور پر ایک جان کا قتل ہے۔ کئی مرتبہ ایسے بچوں کو گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس طرح زنا ہر قسم کی زیادتی اور بے حیائی کو فروغ دیتا ہے۔ ان برائیوں کی وجہ سے حکم دیا ہے کہ زنا کے قریب نہ پھٹکنا کیونکہ یہ سراسر بے حیائی اور برائی کا راستہ ہے۔ بدکاری سے بچنے کے احکام : ﴿وَلَا تَقْرَبُوْا الزِّنَا إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاءَ سَبِیْلاً﴾[ الاسراء :32] ” اور تم زنا کے قریب نہ جاؤیقیناً یہ فحاشی اور بری راہ ہے۔“ ” مومنوں کو فرما دیجیے اپنی نظروں کو جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہتر ہے۔ یقیناً اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔“ [ النور :30] ” اے پیغمبر ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے اوپر لٹکا لیں۔ یہ امر ان کے لیے موجب شناخت ہوگا تو کوئی ان کو ایذاء نہ دے گا اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔“ [ الاحزاب :59] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے بیٹے پر اس کے حصّے کا زنا لکھ دیا ہے وہ ضروراس کو پائے گا۔ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور انسان کے نفس میں بری خواہش پیدا ہوتی ہے۔ وہ شہوت پر آمادہ ہوتا ہے۔ شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ (بخاری ومسلم) مسلم کی روایت میں ہے آپ (ﷺ) نے فرمایا آدم کے بیٹے پر اس کے زنا کا حصہ ثبت ہے وہ ضروراس کو پانے والا ہے۔ آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، کانوں کا زنا سننا ہے اور زبان کا زنا کلام کرنا ہے۔ ہاتھ کا زناپکڑنا ہے اور پاؤں کا زنا چل کر جانا ہے۔ دل خواہشات اور آرزوئیں پیدا کرتا ہے۔ شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔“ یعنی زنا کرنے سے اس کی تصدیق ہوجائے گی۔ زنا کرنے سے دل کی خواہش کی نفی ہوگی۔ [ رواہ مسلم : کتاب القدر، باب قدر علی ابن آدم حظہ من الزنا وغیرہ] زانی کی سزا : (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ وَ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ (رض) اَنَّ رَجُلَیْنِ اخْتَصَمَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَقَالَ اَحَدُھُمَا اقْضِ بَیْنَنَا بِکِتَاب اللّٰہِ وَ قَالَ الْاٰخَرُ اَجَلْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) فَاقْضِ بَیْنَنَا بِکِتَاب اللّٰہِ وَ أءْذَنْ لِیْ اَنْ اَتَکَلَّمَ قَالَ تَکَلَّمْ قَالَ اِنَّ ابْنِیْ کَانَ عَسِیْفًا عَلٰی ھٰذَا فَزَنٰی بامْرَاَتِہٖ فَاَخْبَرُوْنِیْ اَنَّ عَلٰی ابْنِیَ الرَّجْمَ فَافْتَدَیْتُ مِنْہُ بِمِائَۃِ شَاۃٍ وَ بِجَارِیَۃٍ لِیْ ثُمَّ اِنِّی سَاَلْتُ اَھْلَ الْعِلْمِ فَاَخْبَرُوْنِی اَنَّ عَلَی ابْنِی جَلْدَ مِائَۃٍ وَ تَغْرِیْبَ عَامٍ وَ اِنَّمَا الْرَّجْمُ عَلَی امْرَاَتِہٖ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اَمَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہٖ لَاَ قْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَاب اللّٰہِ اَمَّا غَنَمُکَ وَ جَارِیَتُکَ فَرَدٌّ عَلَیْکَ وَاَمَّا ابْنُکَ فَعَلَیْہِ جَلْدُ مائَۃٍ وَ تَغْرَیْبُ عَامٍ وَاَمَّا اَنْتَ یَا اُنَیْسُ فَاغْدُ اِلَی امْرَاَۃِ ھٰذَا فَاِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْھَا فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَھَا) [ رواہ البخاری : باب إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) اور زید بن خالد (رض) بیان کرتے ہیں کہ دو شخص رسول مکرم (ﷺ) کے پاس مقدمہ لے کر آئے۔ ایک نے کہا ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ فرمائیں۔ دوسرے نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا‘ کہ اللہ کے رسول! ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ فرمائیں اور مجھے بات کرنے کی اجازت دیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا : بات کرو۔ اس نے کہا میرا بیٹا اس کے ہاں مزدور تھا‘ اس نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے بیٹے کی سزا رجم ہے۔ میں نے اس کی طرف سے سو بکریاں اور ایک لونڈی بطور فدیہ دی۔ بعد ازاں میں نے علماء (یہود) سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے بطور حد لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے اسے جلا وطن کردیا جائے گا۔ البتہ اس کی بیوی کو رجم کیا جائے گا۔ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا یاد رکھو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ بکریاں اور لونڈی تجھے واپس کی جائیں۔ تیرے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے جلا وطن کردیا جائے گا۔ اے انیس! صبح اس کی بیوی کے پاس جائیں اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے رجم کردیں۔ اس عورت نے زنا کا اقرار کیا لہٰذا اسے رجم کردیا گیا۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ لَمَّا اَتٰی مَاعِزُ ابْنُ مَالِکٍ (رض) النَّبِیَّ (ﷺ) فَقَالَ لَہٗ لَعَلَّکَ قَبَّلْتَ اَوْ غَمَزْتَ اَوْ نَظَرْتَ قَالَ لَا یَا رَسُوْلَ ا للّٰہِ (ﷺ) قَالَ اَنِکْتَھَا لَا یَکْنِیْ قَالَ نَعَمْ فَعِنْدَ ذٰلِکَ اَمَرَ بِرَجْمِہٖ ) [ رواہ البخاری : باب ہَلْ یَقُولُ الإِمَامُ لِلْمُقِرِّ لَعَلَّکَ لَمَسْتَ أَوْ غَمَزْتَ ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب ماعز بن مالک (رض) نبی گرامی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا‘ تو آپ (ﷺ) نے اس سے پوچھا‘ شاید تو نے بوس و کنار اور ملاپ کیا ہو یا اسے دیکھا ہو۔ اس نے کہا نہیں! آپ (ﷺ) نے پوچھا‘ کیا تو نے اس سے جماع کیا ہے؟ آپ کنایہ نہیں کر رہے تھے۔ اس نے کہا‘ جی ہاں! تو آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔“ مسائل: 1۔ زنا کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے۔ 2۔ زنا بے حیائی اور بری راہ ہے۔ تفسیر بالقرآن: زنا کی برائیاں : 1۔ زنا کے قریب نہ جاؤ یقیناً یہ بے حیائی اور برا راستہ ہے۔ (بنی اسرائیل :32) 2۔ نیک لوگ کسی کو ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں۔ (الفرقان :68) 3۔ زانی مرد اور عورت کو سو کوڑے لگائیں۔ (النور :2) 4۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، چوری نہ کریں اور زنا نہ کریں۔ (الممتحنۃ:12)