سورة الإسراء - آیت 2

وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا مِن دُونِي وَكِيلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا کہ تم میرے سوا کوئی کارساز نہ پکڑو۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 2 سے 3) ربط کلام : معراج کا واقعہ درحقیقت یہو دونصارٰی کے لیے یہ پیغام تھا کہ تمہارا دور گزر چکا۔ اب امت مسلمہ کا دور شروع ہونے والا ہے۔ اس لیے واقعہ معراج کی طرف مختصر اشارہ کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو بتلایا اور سمجھایا گیا ہے کہ ہم نے موسیٰ کو ایسی کتاب دی تھی جو تمہارے لیے رہنمائی کا سرچشمہ تھی۔ توراۃ کا مرکزی پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو کا رساز اور اپنے معاملات کا ذمہ دار نہ بنانا۔ اس کے ساتھ ہی بنی اسرائیل کو بتلایا ہے کہ تم نوح (علیہ السلام) کے ساتھیوں کی اولاد ہو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنے رب کے شکر گزار بندے تھے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تعلیم کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ صرف ایک اللہ کے ہوجاؤ، اسی کے سامنے سر جھکاؤ، اسی سے رزق طلب کرو اور اسی پر بھروسہ کرو۔ جو قوم خدادادصلاحیتوں اور اپنے رب پر بھروسہ نہیں کرتی وہ ذلیل ہو کر رہ جاتی ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ پر غور کرو۔ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح بچاکر دنیا میں پھیلایا ؟ ان کے مخالفوں کو کس طرح ڈبکیاں دے دے کر مارا گیا ؟ اگر تم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرو گے۔ تو تمہار ادشمن ناکام اور تم دنیا وآخرت میں کا میاب ہو گے۔ لیکن بنی اسرائیل نے اپنے رب سے کیے گئے وعدوں کی پے در پے خلاف ورزی کی۔ جس کے نتیجے میں وہ ذلیل ہوئے۔ جس کی تفصیل اگلی آیات میں بیان کی گئی ہے۔ جن میں میں بنی اسرائیل کا انجام بیان ہوا ؟ مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہے کہ تمہاری کسمپرسی کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اب تم اقتدار اور اختیا رکے مالک بننے والے ہو۔ دیکھنا بنی اسرائیل کا گھناؤنا کردار اختیار کرنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی طرح شکر گزار بننے کی کوشش کرنا۔ جس کا لازماً نتیجہ ہوگا کہ تم کا میاب اور تمہارا دشمن دنیا وآخرت میں ذلیل خوار ہوگا۔ بنی اسرائیل سے لیے گئے عہد کا خلاصہ : ﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ خُذُوْا مَا اٰتَیْنَاکُمْ بِقُوَّۃٍ وَاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لَکُنْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ [ البقرۃ: 63۔64] ” اور جب ہم نے تم سے عہد لیا اور کوہ طور کو تم پربلند کیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے۔ اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور اسے یادرکھو تا کہ تم متقی بن جاؤ۔ لیکن تم اس کے بعد پھر گئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو تم خسارہ پانے والے ہوتے۔“ ﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ إِلَّا اللّٰہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَقُوْلُوْا للنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ إِلَّا قَلِیْلًا مِنْکُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُوْنَ﴾ [ البقرۃ:83] ” اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، والدین، قریبی رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہنا اور لوگوں سے اچھی باتیں کرنا، نماز قائم کرنا، زکٰوۃ ادا کرنا لیکن چند لوگوں کے سوا سب پھر گئے۔ اس حال میں کہ تم اعراض کرنے والے تھے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو کتاب عنایت فرمائی۔ 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ کے شکر گزار بندے تھے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا۔ تفسیر بالقرآن: مختلف ادوار میں بنی اسرائیل کا انجام : 1۔ بنی اسرائیل چالیس سال صحرا میں سرگرداں رہے۔ (المائدۃ:26) 2۔ بنی اسرائیل پر داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے پھٹکار کی۔ (المائدۃ:78) 3۔ بنی اسرائیل پر اللہ نے لعنت کی۔ (النساء :46) 4۔ بنی اسرائیل دنیا میں ذلیل وخوار ہوئے۔ (بنی اسرائیل :5) 5۔ بنی اسرائیل ذلیل بندر بنا دیئے گئے۔ (البقرۃ:65)