ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
پھر بے شک تیرا رب ان لوگوں کے لیے جنھوں نے جہالت سے برے عمل کیے، پھر اس کے بعد توبہ کرلی اور اصلاح کرلی، بلاشبہ تیرا رب اس کے بعد یقیناً بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : ظلم کرنے کے باوجود جن لوگوں کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر انسان خطا کا پتلاہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک معاف کرتا رہتا ہے۔ جب تک انسان اس کے حضور معافی کا خواستگار رہتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے گناہوں پر اصرار کرتے ہوئے اس کا جواز پیش کرے تو پھر اسے توبہ کی توفیق نہیں ملتی۔ جس کے بارے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جس نے بھی برے کام کیے پھر اس کے گناہوں نے اسے گھیر لیا ایسے لوگ اہل جہنم ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ :81) البتہ جنہوں نے جہالت کی بناء پر گناہ کیے اور پھر توبہ کی یقیناً اللہ انہیں معاف کرنے والا، نہایت مہربان ہے یہاں توبہ کی قبولیت کے لیے ایک شرط عائد کی ہے کہ توبہ کرنے کے بعد وہ شخص نہ صرف اپنے عقیدہ اور کردار کی اصلاح کرے بلکہ اس کی وجہ سے جتنے لوگ گناہ کی طرف مائل ہوئے حتی المقدور ان کی اصلاح کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہوگی۔ (عن عائشۃ .....فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبِہٖ ثُمَّ تَابَ تَاب اللَّہُ عَلَیْہِ) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں۔۔ آپ نے فرمایا یقیناً جب بندہ اپنے گناہ کا اعتراف کرتا اور، توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر رجوع فرماتا ہے۔“ توبہ کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے اور ہر شخص کی توبہ نزع کے وقت سے پہلے قبول ہو سکتی ہے۔ نزع سے مراد موت کی وہ گھڑی ہے جب مرنے والے کو دنیا کے بجائے آخرت نظر آنے لگتی ہے۔ (کُلُّ بَنِیْٓ آدَمَ خَطَّاءٌ وَّخَیْرُ الْخَطَّآئِیْنَ التَّوَّابُوْنَ) [ رواہ ابن ماجہ : کتاب الزھد، باب ذکر التوبۃ] ” آدم کی ساری اولاد خطا کار ہے اور بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں۔“ (مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ یُغَرْغِرَ نَفْسُہٗ قَبِلَ اللّٰہُ مِنْہُ) [ رواہ احمد ] ” جس نے موت کے آثار ظاہرہونے سے پہلے توبہ کرلی اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔“ ( اَلتَّآئِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد] ” گناہ سے توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے کے برابر ہوجاتا ہے۔“ توبہ کی شرائط : توبہ کرنے والا اپنے گناہ پر نادم، آئندہ رک جانے کا عہد اور گناہ کے اثرات کو مٹانے کی کوشش کرے۔ جہالت کے بارے میں مفسرِقرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ انسان ہر گناہ جہالت کی وجہ سے ہی کیا کرتا ہے بے شک اسے معلوم ہو کہ فلاں کام کرنا گناہ اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے۔ البتہ اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ جو شخص گناہ کرنے سے پہلے یہ نیت کرے کہ جو کام میں کرنے لگا ہوں بے شک وہ گناہ ہے۔ مگر اس کے بعد میں توبہ کرلوں گا ایسی صورت میں گناہ کی سنگینی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس سے سمجھدار اور صاحب ایمان شخص کو ہر حال میں بچنا چاہیے۔ مسائل: 1۔ انسان سے برے اعمال سرزد ہوجاتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا، رحم کرنے والاہے۔ 3۔ برے اعمال سرزد ہونے کی صورت میں توبہ اور اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ تفسیر باالقرآن : توبہ کی فضیلت اور شرائط : 1۔ وہ لوگ جو جہالت کی بنا پر برے عمل کرتے ہیں اور اس کے بعد توبہ اور اپنی اصلاح کرتے ہیں اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (النحل :119) 2۔ جو شخص جرم کرنے کے بعد توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرے بے شک اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (المائدۃ :39) 3۔ اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کے لیے بہتر ہے۔ (التوبۃ :74) 4۔ یقیناً میں اسے معاف کردوں گا جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔ (طٰہٰ:82) 5۔ جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے اور عمل صالح کرے تو میں اس کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دوں گا۔ (الفرقان :70) 6۔ اے ایمان والو ! خالص توبہ کرو۔ (التحریم :8) 7۔ اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو گے تو ہم (اللہ) تمھارے چھوٹے گناہ دور کردیں گے۔ (النساء :31)