فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
سو کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمھیں حلال، پاکیزہ رزق دیا ہے اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو، اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔
فہم القرآن : ربط کلام : مکہ والوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کی ناشکری کی جس کی بنا پر قحط سالی نے انہیں آلیا۔ اس لیے ہدایت کی جا رہی ہے کہ لوگو اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعدد فرامین میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے لوگو ! میرے سوا تمہیں کوئی رزق دینے والا نہیں۔ میں ہی اپنی حکمت کی بنا پر تمہا را رزق تنگ اور کشادہ کرتا ہوں۔ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں مزید عنایت کروں گا۔ اگر کفر اور ناشکری کا راستہ اختیار کرو گے تو میر اعذاب نہایت سخت ہوا کرتا ہے۔ (ابراہیم :7) اس بنا پر حکم ہے کہ جو پاک اور حلال رزق تمہیں عطا کیا جاتا ہے۔ اسے کھاؤ اور پیو۔ رزق کے ساتھ جو اور بھی نعمتیں تمہیں عطاکی جاتی ہیں ان کا شکر ادا کرو اگر واقعتا تم اسی کی بندگی کرنے والے ہو۔ اکل حلال کے ساتھ طیب کی شرط اس لیے لگائی ہے کہ بسا اوقات ایک چیز حلال ہوتی ہے مگر کسی وجہ سے وہ غلاظت آلود ہوجاتی ہے۔ مسلمان کا شیوہ یہ ہے کہ وہ حلال کے ساتھ صفائی اور طہارت کا خیال رکھے تاکہ مختلف قسم کی بیماریوں سے محفوظ رہے۔ یہاں شکر اور عبادت کو ایک حد تک لازم وملزوم قرار دیا ہے۔ جو شخص اللہ کا عبادت گزار ہے یقیناً وہ شکر گزا ربھی ہوگا اور جو اس کا شکر گزار بننا چاہتا ہے۔ اسے اللہ کی عبادت کرنا بھی لازم ہے۔ باالفاظ دیگر عبادت گزار ہی اللہ کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ حلال کی اہمیت : (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یْکرِبَ الزُّبَیْدِیِّ (رض) عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ مَا کَسَبَ الرَّجُلُ کَسْبًا أَطْیَبَ مِنْ عَمَلِ یَدِہٖ وَمَآ أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلٰی نَفْسِہٖ وَ أَہْلِہٖ وَوَلَدِہٖ وَخَادِمِہٖ فَہُوَ صَدَقَۃٌ)[ رواہ ابن ماجۃ: کتاب التجارات] ” حضرت مقدام بن معدیکرب (رض) رسول گرامی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : آدمی کے ہاتھ کی کمائی سے بڑھ کر اور کوئی کمائی پاکیزہ نہیں اور آدمی اپنے نفس، اہل، اولاد اور خادم پر جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ صدقہ ہے۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِنَّ مِنْ أَطْیَبِ مَآ أَکَلَ الرَّجُلُ مِنْ کَسْبِہٖ وَوَلَدُہٗ مِنْ کَسْبِہٖ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب البیوع، باب فی الرجل یأکل من مال ولدہ] ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : بہترین اور پاکیزہ مال وہ ہے جو آدمی اپنی کمائی سے کھاتا ہے اور اس کی اولادبھی اس کی کمائی ہے۔“ (لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ وَّ دَمٌ نَبْتَا عَلٰی سُحْتٍ فَالنَّارُ اَوْلٰی بِہٖ ) [ رواہ ترمذی : کتاب الصلاۃ باب ما ذکر فی فضل الصلاۃ] ” جنت میں وہ گوشت اور خون داخل نہیں ہوگا جو حرام سے پلا ہوگا اس کے لیے دوزخ ہی مناسب ہے۔“ شکروحمد : اللہ تعالیٰ کے احسانات کا اظہار اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرنا مشکلات سے محفوظ رہنے کا طریقہ ہے، مزید ملنے کی گارنٹی اور زوال نعمت سے مامون رہنے کی ضمانت ہے۔ شکر رب کی بارگاہ میں نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ اس کے مقابلہ میں ناشکری کفر کے مترادف ہے۔ (لئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ) [ ابراہیم :7] ” اگر تم شکرکا رویہ اپناؤ گے تو مزید عنایات پاؤگے۔“ اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی عبادت اور دین کے کسی عمل کے بارے میں بیک وقت یہ نہیں فرمایا کہ اس کی ادائیگی سے تم عذاب سے محفوظ اور مزیدانعامات کے حقدار بن جاؤ گے۔ صرف شکر ایسا عمل ہے جس کے بارے میں فرمایا ہے کہ عذاب سے بچنے کے ساتھ مزید عطاؤں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ذرّہ ذرّہ شکر گزار ہے : کائنات کا ایک ایک ذرہ مالک حقیقی کی حمدوستائش اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے شکرکے ترانے الاپ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ایمان ہے جس کے ہوتے ہوئے آدمی ہر مشکل کا سامنا اور ہرقسم کی پریشانی کو برداشت کرسکتا ہے، ایمان کا محورومرکز قرآن ہے اور قرآن کا خلاصہ فاتحہ ہے اسی بنا پر اس کا دوسرا نام ام الکتاب ہے سورۃ فاتحہ کا خلاصہ حمد کا لفظ قرار پایا اس میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ انسان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر اور مزید طلب کے لیے اس کی حمدو ستائش کرنی چاہیے۔ حمد پر ہی روزِمحشر عدالت کبریا کا اختتام ہوگا۔ (وَتَرَی الْمَلائِکَۃَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَقُضِیَ بَیْنَھُمْ بالْحَقِّ وَقِیْلَ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ )[ الزمر :75] ” اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد وتسبیح کر رہے ہوں گے اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جائے گا اور صدائیں بلند ہوں گی ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ﴾ کہ تمام تعریفات اللہ ہی کے لیے ہیں۔“ نیک لوگوں کی دعا اور شکر کا انداز : ” اے میرے رب! مجھے توفیق بخش کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائی ہیں اور نیک عمل کروں جس سے آپ راضی ہوں۔ مجھے اور میری اولاد کو نیک فرما۔ میں تیرے حضور معافی کی درخوست کرتے ہوئے تابع فرمان ہوئی جا رہا ہوں۔“ ” حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم (ﷺ) نے میرے ہاتھ کو پکڑا، پھر فرمایا اے معاذ میں تجھ سے محبت کر تاہوں تو میں نے آپ کے لیے کہا اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ ہر فداہوں میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں آپ نے فرمایا اے معاذ میں تجھے وصیت کرتاہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ کلمات پڑھنا نہ چھورنا۔ اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اچھی عبادت پر میری مدد فرما۔“ مسائل: 1۔ کھانا حلال اور پاک کھانا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ 3۔ ایک اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ تفسیرباالقرآن: اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے والوں کا انجام : 1۔ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔ (النحل :114) 2۔ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔ (ابراہیم :7) 3۔ اللہ تمہیں عذاب نہیں دے گا اگر تم شکر کرو اور ایمان لے آؤ۔ (النساء :147) 4۔ اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ (یونس :60) 5۔ بستی والوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا۔ (النحل :112) 6۔ قرآن میں شکر بمعنی ” اللہ کی فرمانبرداری کرنا“ بہت سی آیات میں استعمال ہوا ہے۔ (الزمر :7)