وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو امن والی، اطمینان والی تھی، اس کے پاس اس کا رزق کھلاہر جگہ سے آتا تھا، تو اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا، اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔
فہم القرآن : (آیت 112 سے 113) ربط کلام : قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے اچھے برے اعمال کی پوری پوری جزا یا سزا دی جائے گی۔ بسا اوقات کچھ لوگوں کو دنیا میں بھی ان کے اعمال کی سزا دی جاتی ہے۔ جس کی ایک مثال پیش کی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جس میں ہر طرح کا امن وامان اور اسے ہر جانب سے کشادہ رزق فراہم کیا جارہا تھا۔ لیکن اس بستی والوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بجائے کفر اور ناشکری کا رویہ اختیار کیے رکھا۔ جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا تاکہ ان کے کردار کی انہیں سزا دی جائے۔ یہ سزا اس لیے بھی دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا۔ مگر انہوں نے رسول کی نصرت وحمایت کرنے کے بجائے اسے کلی طور پر جھٹلا دیا۔ جس کی پاداش میں انہیں عذاب نے آلیا۔ کیونکہ وہ ظلم کررہے تھے۔ جس بستی کی یہاں مثال بیان کی گئی ہے۔ اس کی تعیین کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ کچھ اہل علم نے لکھا ہے کہ اس سے مراد ملک سبا کا دارالخلافہ ہے۔ مگر اکثر اہل علم کا رجحان اس طرف ہے کہ اس سے مراد مکہ معظمہ ہے۔ جو شدید افرا تفری کے دور میں بھی امن وسکون کا گہوارہ تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور بیت اللہ شریف کی برکت سے یہ شہر نہ صرف امن وامان کا گہوارہ تھا بلکہ پوری دنیا کے پھل اور اناج وافر مقدار میں یہاں پہنچ رہے تھے۔ حالانکہ عرب کی سرزمین انارکی اور قحط سالی کا شکار رہتی تھی۔ خشک پہاڑ، سنگلاخ زمین اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے حدّنگاہ تک ہریالی کا تصورتک نہ تھا۔ دن دیہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے لیکن بیت اللہ کے متولی اور مکہ کے باسی ہونے کی وجہ سے اہل مکہ کا اس قدر مقام واحترام پایا جاتا تھا کہ نہ صرف ان کے قافلے محفوظ رہتے بلکہ ان کا جاری کیا ہوا پروانہ راہداری کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کرم کے ساتھ ان میں رسول کریم (ﷺ) کو مبعوث فرمایا۔ آپ (ﷺ) نے تیرہ سال نہایت اخلاص کے ساتھ شب وروز مکہ والوں کے عقائد اور کردار کی اصلاح کرنے کی کوشش فرمائی۔ لیکن اہل مکہ نے آپ (ﷺ) کی پر خلوص جدوجہد کا صلہ بدترین مظالم کے ساتھ دیا۔ جس کے نتیجے میں آپ اور آپ کے ساتھی مکہ جیسے بابرکت شہر کو چھوڑ کر مدینہ میں پناہ گزیں ہوئے۔ جوں ہی سرور دوعالم (ﷺ) اور اہل ایمان نے مکہ سے ہجرت کی۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ پر سخت گرفت فرمائی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امن وامان کا گہوارہ اور بابرکت شہر خوف وہراس اور ہر قسم کی ویرانی کا منظر پیش کرنے لگا۔ عام لوگ تو درکنار قریشی سردار بھی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر جانوروں کے خشک چمڑے پانی میں بھگو کر کھانے پر مجبور ہوئے۔ یہاں بھوک اور خوف کے لیے لباس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ گویا کہ جس طرح لباس چھوٹے، بڑے اور مرد وزن کے جسم کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ اسی طرح بھوک اور خوف ان کے ساتھ لگ چکے تھے جس سے چھٹکارا پانا ان کے بس کا روگ نہ تھا۔ جہاں تک خوف کا تعلق ہے۔ اہل مکہ بدر، احد اور خندق میں مدینہ پر جارحیت کرنے کے باوجود صبح وشام اس خوف میں مبتلا رہتے تھے کہ کسی وقت بھی محمد (ﷺ) اور اس کے ساتھی ہم پر غالب آجائیں گے۔ تفسیر بالقرآن: رسولوں کو جھٹلانے والوں کا انجام : 1۔ ان کے پاس ان میں سے رسول آئے تو انہوں نے تکذیب کی تو انہیں عذاب نے آلیا۔ (النحل :113) 2۔ ان کے لیے کہا جائے گا تکذیب کرنے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا رہو۔ (السجدۃ :20) 3۔ انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا۔ (الشعراء :139) 4۔ قوم نوح نے جب حضرت نوح کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں غرق کردیا۔ (الفرقان :37) 5۔ ہم نے آل فرعون سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کردیا۔ (الاعراف :136) 6۔ ان کے جھٹلانے کی وجہ سے انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ (البقرۃ:10) 7۔ پہلے لوگوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تھا سو دیکھو میر اعذاب کیسا تھا؟ (الملک :18) 8۔ اس سے پہلے بھی کفار نے تکذیب کی تو ان کے پاس وہاں سے عذاب آیا جہاں سے انہیں تصور بھی نہ تھا۔ (الزمر :25)