يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
جس دن ہر شخص اس حال میں آئے گا کہ اپنی طرف سے جھگڑ رہا ہوگا اور ہر شخص کو پورا دیا جائے گا جو اس نے کیا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔
فہم القرآن : ربط کلام : صبر و استقامت کے ساتھ دین پر قائم رہنے والے لوگوں کو شفقت و مہربانی اور بخشش کی نوید سنانے کے بعد ظالموں اور دین کے منکرین کو ان کے انجام سے آگاہ کیا جارہا ہے۔ قرآن مجید کا یہ مؤثر اور دل ہلا دینے والا اسلوب ہے کہ وہ اکثر مقامات پر اس بات کا التزام کرتا ہے کہ نیکی اور بدی کا فرق سمجھاتے ہوئے برے لوگوں کو ان کا بدترین انجام اور دین کی خاطر قربانی دینے والوں کا بہترین انجام بیک وقت ذکر کیا جائے۔ اسی اسلوب کے پیش نظر پہلے برے لوگوں کے کردار اور ان کا انجام ذکر کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں نیک لوگوں کی ایمان پر استقامت، ان کا حسن کردار اور ان کے بہترین انجام کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ” ظالموں کو وہ وقت یاد کرنا چاہیے کہ جب وہ اپنے بارے میں جھگڑا کر رہے ہوں گے۔ اس دن نیکوں کو پوری پوری جزا اور برے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ کسی پر کسی اعتبار سے بھی ذرہ برابر زیادتی نہیں کی جائے گی۔ مسائل: 1۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ 2۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ 3۔ قیامت کے دن کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: مجرم کا اپنے آپ سے جھگڑا کرنے کی کئی صورتیں ہوں گی : 1۔ مجرم اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کے لیے اپنے برے اعمال کا کلیتاً انکار کریں گے۔ (الانعام : 23۔24) 2۔ مجر م اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گناہوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالیں گے۔ (الاحزاب : 66۔68) 3۔ مجرموں سے سوال کیا جائیگا کہ تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ تو وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم سوال کریں گے کہیں گے تم تو ہمارے پاس دائیں، بائیں سے آتے تھے وہ جواب دیں گے بلکہ تم خود ہی ایمان لانے والے نہ تھے اور ہمارا تم پر کچھ زور نہیں تھا بلکہ تم خود سر کش تھے (الصٰفٰت : 22۔31) 4۔ ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے اور کہیں گے کاش! میں نے رسول کے ساتھ ہی اپنی روش اختیار کی ہوتی۔ (الفرقان : 27۔30)