فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
پس جب تو قرآن پڑھے تو مردود شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کر۔
فہم القرآن : (آیت 98 سے 100) ربط کلام : اس سے پہلی آیات میں نیک مرد اور عورتوں کے اجر کا ذکر ہوا۔ اب بتلایا ہے کہ نیکی کے کاموں کا علم قرآن مجید کی تلاوت سے حاصل ہوگا۔ قرآن کی تلاوت اور نیکی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اللہ کے حضور شیطان سے بچنے کی دعا کی جائے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی عظیم، مقدس اور آخری کتاب ہے۔ اس سے استفادہ کرنے کے لیے ظاہری اور باطنی آداب مقرر کیے گئے ہیں۔ اگر انسان ان آداب کو ملحوظ خاطر نہ رکھے تو وہ قرآن مجید جیسی عظیم اور مقدس کتاب سے کماحقہ ٗفائدہ نہیں اٹھا سکتا، اس کا حقیقی اور پہلا ادب یہ ہے، اسے ہدایت کے لیے پڑھا جائے اور اس کے بتلائے ہوئے اصولوں کے مطابق نہ صرف زندگی بسر کی جائے بلکہ اس کے منع کردہ امور سے کلی طور پر اجتناب کیا جائے۔ اس اصول کو قرآن نے ابتدا میں ہی واضح کردیا ہے۔ یہ قرآن گناہوں سے پرہیز کرنے والوں کے لیے کتاب ہدایت ہے ( البقرہ :2) قرآن مجید کے ظاہری آداب میں پہلا ادب یہ ہے کہ اسے طہارت کی حالت میں پکڑاجائے اور اس کی تلاوت اعوذباللّٰہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر کی جائے جو شخص ایمان اور طہارت کی حالت میں اس کی تلاوت اس نیت کے ساتھ کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی فرمائے تو اس پر شیطان زیادہ دیر تک غالب نہیں رہ سکتا۔ شیطان تو ان لوگوں پر غلبہ جماتا ہے جو اس سے دوستی اور تعلق قائم رکھتے اور اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ یہاں تلاوت قرآن مجید سے پہلے اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ پڑھنے کا حکم ہے۔ ذرا غور فرمائیں ایک شخص پاک جسم اور صاف نیت سے تلاوت قرآن سے پہلے نہایت عاجزی کے ساتھ تعوذ کے معنی کو سامنے رکھتا ہوا اس نیت کے ساتھ تلاوت کرتا ہے کہ الٰہی اس کتاب مقدس کے ذریعے اپنی رحمت سے میری رہنمائی فرما اس پر شیطان کس طرح غلبہ جما سکتا ہے ؟ تعوذ کا معنیٰ: عوذ چوپائے کے چھوٹے بچے کو کہتے ہیں جو اتنا چھوٹا ہو کہ پوری طرح اپنے پاؤں پر چل کر ماں کا دودھ نہ پی سکے۔ وہ گرتا اور سنبھلتا ہواماں کے تھنوں تک پہنچے۔ گویا کہ بندہ شیطان کے مقابلے میں اس قدر کمزور ہے جس لیے وہ اللہ کی پناہ کی درخواست کرتا ہے۔ مسائل: 1۔ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت تعوذ پڑھنا لازم ہے۔ 2۔ ایمان والے شیطان کے داؤ سے بچ نکلتے ہیں۔ 3۔ ایمان والے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں۔ 4۔ شیطان کا داؤ انہی پر چلتا ہے جو اسے اپنا دوست بناۓ رکھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے : 1۔ ایمان والے اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (النحل :99) 2۔ میں نے اسی پر توکل کیا ہے اور توکل کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (یوسف :67) 3۔ اے نبی! فرما دیجیے مجھے اللہ ہی کافی ہے اسی پر توکل کرنے والے توکل کرتے ہیں۔ (الزمر :38) 4۔ اللہ پر توکل کرو اگر تم مومن ہو۔ (المائدۃ:23) 5۔ جب کسی کا کام کا ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو بے شک اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران :159) 6۔ ہمیشہ زندہ رہنے والے اللہ پر توکل کرو جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ (الفرقان :58) 7۔ اگر اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر توکل کرو۔ (یونس :84) 8۔ مومنوں پر جب قرآنی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ (الانفال :2)