وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَلَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور اگر اللہ چاہتا تو یقیناً تمھیں ایک ہی امت بنا دیتا اور لیکن وہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور یقیناً تم اس کے بارے میں ضرور پوچھے جاؤ گے جو تم کیا کرتے تھے۔
فہم القرآن : دنیوی مفاد اور باہمی اختلاف کی و جہ سے عہدتوڑنا اور قسم کی بے حرمتی کرنا گمراہ لوگوں کا کام ہے۔ لوگ دنیوی مفاد اور باہمی اختلاف میں آکر اللہ کی نازل کردہ ہدایت کو بھول جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو انتباہ کرنے اور ہدایت یافتہ لوگوں کو تسلی دینے کے لیے فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت میں سب کو ہدایت دینا لازم ہوتا۔ تو اللہ تعالیٰ بااختیار اور طاقتور ہے کہ تمام انسانوں کو ہدایت یافتہ بنا دیتا اور پوری دنیا کے انسان بہترین کردار کے حامل اور ایک ہی امت قرار پاتے۔ لیکن ” اللہ“ نے ہدایت اور گمراہی کے اختیار کرنے میں انسان کو کھلا چھوڑ دیا ہے۔ جو لوگ ہدایت واضح ہونے کے باوجود گمراہی اختیار کریں گے اللہ تعالیٰ ضرور ان سے پوچھ گچھ کرے گا۔ یہ بات کئی مرتبہ بیان کی جا چکی ہے کیونکہ ہدایت اور گمراہی بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ان کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ جسے چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہ کرے۔ ہدایت کی طلب اور اس پر استقامت کی دعا کرنا چاہیے : (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) اَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ (اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الْھُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی) [ رواہ مسلم : باب التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلَ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ یَعْمَل] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (ﷺ) یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ ” اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت‘ تقویٰ‘ پاکیزگی اور استغناء کا طلب گار ہوں۔“