وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ أَشْرَكُوا شُرَكَاءَهُمْ قَالُوا رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ شُرَكَاؤُنَا الَّذِينَ كُنَّا نَدْعُو مِن دُونِكَ ۖ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكَاذِبُونَ
اور جب وہ لوگ جنھوں نے شریک بنائے اپنے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے اے ہمارے رب! یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنھیں ہم تیرے سوا پکارا کرتے تھے۔ تو وہ ان کی طرف یہ بات پھینک ماریں گے کہ بلاشبہ یقیناً تم جھوٹے ہو۔
فہم القرآن : (آیت 86 سے 88) ربط کلام : عذاب کا فیصلہ ہوجانے کے بعد مجرمین کا اپنے معبودان باطل کے بارے میں اقرار۔ قرآن مجید نے یہ حقیقت بھی کئی بار بیان کی ہے کہ محشر کے میدان میں مختلف مراحل پر مشرکین کا اپنے معبودوں کے ساتھ آمنا سامنا ہوگا۔ مشرک جن لوگوں کو دنیا میں مشکل کشا سمجھ کر نذرانے پیش کرتے اور ان کو سجدے کیا کرتے تھے ان کو پہچانتے ہوئے فریاد کے انداز میں کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! یہ ہیں ہمارے معبود۔ جن کو ہم تیرے سوا حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے تھے دوسرے مقام پر قرآن مجید نے ان کے اس مطالبے کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے معبودان باطل کو دیکھ کر رب ذوالجلال سے فریاد کریں گے کہ ان لوگوں کی وجہ سے ہم اس انجام تک پہنچے اے ہمارے رب انہیں دوگنا عذاب دیاجائے۔ (الاعراف :38) یہ سنتے ہی معبودان باطل اس بات کو اپنے مریدوں پر لوٹائیں گے کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ جب مجرم لوگ ہر طرف سے مایوس ہوجائیں گے تو سب کچھ بھول کر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی فرمانبرداری پیش کریں گے لیکن اس وقت گناہوں کا اعتراف کرنے اور فرمانبردار ہونے کا انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ (1) یہاں جھوٹے عابدوں اور معبودوں کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ معبود اپنی عبادت کرنے والوں کو یہ کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو۔ اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ 1۔ انکار کرنے والوں سے مراد اللہ کے وہ بندے ہوں گے جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا پرچار کرنے کے ساتھ ہر قسم کے شرک کی مذمت کیا کرتے تھے۔ لیکن ان کے فوت ہوجانے کے بعد ان کے چاہنے والوں نے انھیں مشکل کشا بنا لیا اور ان کی قبروں پر شرکیہ اعمال کرنے لگے۔ اور ان سے دعائیں مانگنے لگے، وہ قیامت کے دن ان کے اس شرک کا صاف انکار کردیں گے۔ (فاطر : 13۔14) 2۔ ان سے مراد یقیناً وہ لوگ ہیں جو مریدوں سے اپنے آپ کو سجدہ سجود کروایا کرتے اور جھوٹی امیدیں دلوایا کرتے تھے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ کا عذاب دیکھیں گے تو اپنے مریدوں کو یہ کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو ہم تو کسی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی نہیں کرسکتے تھے۔ کیونکہ قرآن مجید نے بتلایا ہے کہ جب پیر عذاب دیکھیں گے تو اپنے مریدوں سے بیزاری کا اعلان کریں گے اس طرح ان کے درمیان تمام واسطے اور امیدیں منقطع ہوجائیں گی۔ مرید کہیں گے کاش! ہمیں دنیا میں واپس جانے کا موقع ملے تو ہم ان پیروں سے ایسے ہی بیزار ہوجائیں جیسے ہم سے یہ بیزار ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسرت بڑھانے کے لیے ایسا کریں گے اور وہ کبھی جہنم سے نہیں نکل پائیں گے۔ (البقرہ : 166۔167) مسائل: 1۔ قیامت کے دن مشرک اپنے معبودوں کو پہچان لیں گے۔ 2۔ قیامت کے دن مشرک کا کوئی بہانہ قبول نہ کیا جائے گا۔ 3۔ معبودان باطل اپنی عبادت کا انکار کریں گے اور مریدوں کو جھوٹا قرار دیں گے۔ تفسیر بالقرآن : عہد اور قسم کی پاسداری کا حکم : 1۔ جب تم عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو اور پختہ قسموں کی حفاظت کرو۔ (النحل :91) 2۔ اللہ کے عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ (الاحزاب :15) 3۔ جو شخص اللہ کے عہد کی پاسداری کرتا ہے اسے بشارت دے دیں۔ (التوبۃ:111) 4۔ اللہ کا فرمان ہے تم میرے وعدے کو پورا کرو میں تمہارے وعدے کو پورا کروں گا۔ (البقرۃ :40)