فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
پس اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو۔ بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
فہم القرآن : (آیت 74 سے 75) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ معبودان باطل کی مثالیں خالق حقیقی کے ساتھ بیان کی بجائے ان کا اپنے ساتھ موازنہ کرو اور اپنے ضمیر کے آئینہ میں دیکھو اور سوچو تاکہ تمہارے سامنے حقیقت منکشف ہوجائے کہ شرک کا عقیدہ کس قدر بے بنیاد اور بے انصافی پر مبنی ہے۔ مشرکین کی پرانی عادت ہے کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت سمجھائی جائے۔ تو مشرک اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرتوں کا اعتراف کرنے کے بجائے اپنے معبودان باطل کے حق میں دلائل دیتے اور ان کو اللہ تعالیٰ کے مشابہ قرار دیتے ہیں۔ بالخصوص جو لوگ مدفون بزرگوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ اور دلائل یہ ہیں کہ جس طرح دنیا میں ایک حکمران اپنا نظام چلانے کے لیے مختلف لوگوں کو ذمہ داریاں تفویض کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گو اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے مگر اس نے بھی کائنات کا نظام چلانے کے لیے اپنی خوشی سے مدفون بزرگوں کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں جس کی بنا پر ہم ان کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجات طلب کرتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ دلیل دیتے ہیں کہ جس طرح حاکم کو ملنے کے لیے اس کے P-A کو ملنا ضروری ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے اور اس کو اپنی فریاد پہنچانے کے لیے بزرگوں کے وسیلے کی ضرورت ہے۔ کچھ جاہل تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جس طرح چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کو اپنی فریاد پہنچانے کے لیے مدفون بزرگوں کی ارواح کا واسطہ دینا لازم ہے۔ ان مثالوں پر ذرا غور فرمائیں تو آپ کے سامنے ان کی حقیقت کھل جائے گی۔ چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت اس لیے ہے کہ چھت نیچے آنہیں سکتی اور چھت پر چڑھنے والا سیڑھی کے بغیر اس پر چڑھ نہیں سکتا، حاکم کو ملنے کے لیے اس لیے سفارش چاہیے کہ وہ غریب اور کمزور لوگوں کی فریاد کو براہ راست سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی صورت حال قبروں میں مدفون بزرگوں کی ہے جو نہ کسی کی فریاد سن سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کی مدد کرسکتے ہیں یہاں تک اپنی قبر پر ہونے والی غیر شرعی حرکات کو نہیں روک سکتے۔ حالانکہ ان میں ایسے مواحد بھی تھے جو اپنی زندگی میں شرک و بدعات سے سختی سے روکتے تھے۔ لیکن اب ان کی بے چارگی کا یہ عالم ہے ان کے نام پر شرک و بدعت اور خرافات کی جا رہی ہیں۔ لیکن روک نہیں سکتے۔ یہاں تک انہیں خبر نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ ان کی حالت ایسی ہے جیسی آقا کے مقابلے میں غلام کی ہوتی ہے جو مالک کے حکم کا پابند اور اس کا تابع مہمل ہوتا ہے۔ مالک کے مال سے ایک روپیہ بھی اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں ایسا شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے وافر رزق عنایت فرما رکھا ہے وہ اپنی مرضی اور خوشی سے جہاں اور جتنا چاہتا ہے خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتا ہے۔ کیا مالک اور غلام، بے اختیار اور بااختیار کنگال اور سخی برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے خالق کے سامنے ایک غلام سے کہیں زیادہ بے بس ہیں۔ حق یہ ہے کہ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں۔ جس کا کوئی شریک نہیں اور نہ اس کا شریک ثابت کرنے کے لیے کوئی معقول دلیل ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس حقیقت کو جاننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف مثالیں بیان فرمائیں۔ 2۔ جس طرح غلام اور آقا برابر نہیں اسی طرح خالق اور مخلوق برابر نہیں۔ 3۔ تمام تعریفات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : مشرک اور کافر حقیقی علم سے بے بہرہ ہوتے ہیں : 1۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (النحل :75) 2۔ آسمان و زمین کا پیدا کرنا انسانی تخلیق سے بڑا کام ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (المومن :57) 3۔ یہی صحیح دین ہے لیکن لوگوں کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔ (الروم :30) 4۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا لیکن اکثر لوگ بے علم ہیں۔ (الروم :6) 5۔ اکثریت حق کو نہیں پہچانتی۔ بلکہ اکثر لوگ حق سے اعراض کرتے ہیں۔ (الانبیاء :24)