وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ
اور اللہ نے تمھارے لیے خود تمھی میں سے بیویاں بنائیں اور تمھارے لیے تمھاری بیویوں سے بیٹے اور پوتے بنائے اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیاتو کیا وہ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا وہ انکار کرتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 72 سے 73) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کے بلا شرکت غیرے خالق ہونے کی پانچویں دلیل : مشرک کے ضمیر کو جھنجھوڑنے اور رزق میں تفادت بیان کے بعداب ان کے نفوس کے حوالے سے عقیدۂ توحید سمجھایا جا رہا ہے۔ اللہ وہ خالق ہے جس نے مردوں میں سے ہی ان کی بیویوں کو پیدا فرمایا اور پھر ان کی بیویوں سے بیٹے اور پوتوں کا سلسلہ جاری کیا۔ وہی تمہیں پاک چیزوں سے روزی دیتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ باطل معبودوں پر ایمان لاتے ہیں۔ حقیقت میں مشرک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اس آیت مبارکہ میں دو باتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں سے ان کی بیویوں کو پیدا فرمایا جسے قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے۔” اے لوگو! اپنے رب سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان ( آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا پھر آدم سے ہی اس کی بیوی کو پیدا فرمایا پھر دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری میں بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔“ (سورۃ النساء :1) حضرت آدم (علیہ السلام) کا ذکر فرماکر یہاں تمام لوگوں کی تخلیق بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ ” ہم نے تم سے تمہاری بیویوں کو پیدا کیا ہے۔“ جس کا پہلا مفہوم یہ ہے کہ وہ تمہاری جنس سے تعلق رکھتی ہیں۔ دوسرا مفہوم یہ لینے کی گنجائش بھی نکلتی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو ایک ہی مٹی سے پیدا کیا ہو۔ (الروم :21) 2۔ اللہ تعالیٰ ہی میاں بیوی کے ملاپ کے بعد بیٹے دیتا ہے اور کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں پوتوں کی خوشیاں بھی دیکھنا نصیب ہوتی ہے۔ اس بات سے یہ حقیقت عیاں کرنا مقصود ہے کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ ہی تمہیں بیویاں اور اولاد عطا فرماتا ہے۔ اور وہی پاک چیزوں سے تمہاری روزی کا بندوبست کرتا ہے۔ اس کے باوجود مشرک اپنے معبودوں کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مثالیں دیتے ہیں۔ لیکن تم اس کی نعمتوں کا شکر یہ ادا کرنے کے بجائے اس کے ساتھ دوسروں کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے اور عبادت کے لائق جانتے ہو۔ حالانکہ وہ تمھیں رزق کا ایک دانہ بھی مہیا نہیں کرسکتے۔ اور نہ ہی کسی کی حاجت پوری کرنے کے قابل اور مشکل حل کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے لیکن تم نہیں جانتے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کی نسل سے ہی عورت پیدا کی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ 3۔ مشرک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بتوں اور مدفون بزرگوں کی مثالیں بیان نہیں کرنی چاہییں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کے رزق کا مالک نہیں : 1۔ اللہ کے سوامشرک ان کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو آسمان و زمین سے رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ (النحل :73) 2۔ اگر تم اللہ کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اس کے خرچ ہوجانے کے ڈر سے ہاتھ روک لیتے۔ (الاسراء :100) 3۔ بے شک جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو وہ تمہارے رزق کے مالک نہیں ہیں۔ (العنکبوت :17) 4۔ کتنے ہی چوپائے ایسے ہیں کہ تم انہیں رزق نہیں دیتے اللہ ہی ان کو رزق دینے والا ہے۔ (العنکبوت :60)