سورة النحل - آیت 45

أَفَأَمِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيِّئَاتِ أَن يَخْسِفَ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو کیا وہ لوگ جنھوں نے بری تدبیریں کی ہیں، اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ انھیں زمین میں دھنسا دے، یا ان پر عذاب آجائے جہاں سے وہ سوچتے نہ ہوں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 45 سے 47) ربط کلام : توحید و رسالت اور عقیدہ آخرت کا انکار کرنے والوں کو زبر دست انتباہ۔ توحید و رسالت اور عقیدہ آخرت کے مختصر دلائل دینے کے بعد ان لوگوں کو انتباہ کیا جا رہا ہے جو توحید کا انکار، نبوت کے خلاف سازشیں اور قیامت برپا ہونے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے، کیا یہ لوگ اس بات سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان پر اس وقت عذاب نازل کرے جس وقت انہیں وہم و گمان بھی نہ ہو؟ یا پھر انہیں چلتے پھرتے اور کام کاج کرتے ہوئے عذاب آلے جسے ٹالنے کی یہ کسی طرح بھی طاقت نہ رکھتے ہوں یا ان پر ایسا مسلط کر دے جس کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا تک نہ ہو۔ یہاں چار قسم کے عذابوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ یہ سب کے سب عذاب تم سے پہلے مجرموں پر نازل ہوچکے ہیں۔ عقیدے اور کردار کے حوالے سے تم ان لوگوں سے مختلف نہیں ہو۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ وہ تمہیں مہلت دیئے ہوئے ہے۔ کیونکہ تمہارا رب بڑا مہربان اور شفقت فرمانے والا ہے۔ خوف سے مراد دشمن کا خوف ہے۔ جس قوم پر یہ مسلط کردیا جائے وہ قوم ضمیر کے حوالے سے مردہ ہوجاتی ہے۔ بالآخر اپنا سب کچھ کھو بیٹھتی ہے۔ ﴿إِنَّ قَارُونَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَی فَبَغَی عَلَیْہِمْ وَآَتَیْنَاہُ مِنَ الْکُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَہُ لَتَنُوء بالْعُصْبَۃِ أُولِی الْقُوَّۃِ إِذْ قَالَ لَہُ قَوْمُہُ لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِینَ﴾ [ القصص :76] ” بے شک قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کا باغی تھا اور ہم نے اسے خزانوں سے نوازا تھا اس کے خزانے کی چابیاں ایک طاقتور جماعت اٹھاتی تھی اسے اس کی قوم نے کہا اترانے کی ضرورت نہیں اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“ ہم نے اسے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا تو اللہ کے سوا کوئی اس کا مددگار نہ ہوا اور نہ وہ اس کا بدلہ لے سکا۔ (القصص :81) مسائل: 1۔ اللہ کے عذاب سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو زمین میں دھنسانے پر قادر ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے لوگوں کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ انسان کو چلتے پھرتے پکڑ سکتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی عاجز نہیں کرسکتا۔ 6۔ اللہ تعالیٰ بڑا شفیق اور رحمت کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : پہلی اقوام پر عذاب کی اقسام : 1۔ کیا وہ لوگ بے فکر ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے؟ (النحل :45) 2۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود :67) 3۔ قوم عاد کو تیز و تند ہوا نے ہلاک کیا۔ (الحاقۃ :6) 4۔ قوم لوط کی بستی کو الٹاکر دیا اور ان پرکھنگر والے پتھر برسائے گئے۔ (الحجر :74) 5۔ آل فرعون کو غرق کردیا گیا۔ (البقرۃ :50) 6۔ ان کے گناہ کی پاداش میں پکڑ لیا کسی پر تند ہوا بھیجی، کسی کو ہولناک آواز نے آلیا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ کو غرق کردیا۔ (العنکبوت :40) 7۔ بنی اسرائیل کو اللہ نے ذلیل بندر بنا دیا۔ (البقرۃ :65)