وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللَّهُ مَن يَمُوتُ ۚ بَلَىٰ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور انھوں نے اپنی پکی قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی کہ اللہ اسے نہیں اٹھائے گا جو مر جائے۔ کیوں نہیں! وعدہ ہے اس کے ذمے سچا اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
فہم القرآن : (آیت 38 سے 40) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ گمراہ لوگوں کو ہدایت اس لیے نصیب نہیں ہوتی کیونکہ یہ اللہ کے حضور پیش ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ ہدایت پانے اور گناہوں سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اگر میں ایمان لانے کے بعد اچھے اعمال کروں گا تو میرا رب مجھے آخرت میں اس کی جزادے گا۔ اگر میں نے ایمان لانے سے انکار کیا اور برے اعمال اختیار کیے تو مرنے کے بعد مجھے اس کی سخت سزا دی جائے گی۔ جب آدمی اس عقیدہ کا انکار کرتا ہے تو پھر وہ کفرو شرک اور جرائم کرنے میں دلیر ہوجاتا ہے۔ اسی دلیری کے پیش نظر آخرت کے منکر قسمیں اٹھا اٹھا کے کہتے تھے کہ اللہ کی قسم! جو مر گیا اللہ تعالیٰ اسے کبھی نہیں اٹھائے گا۔ یہاں ان کی قسموں اور عقیدے کی نفی کے لیے چار دلائل دیے گئے ہیں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس کا وعدہ ہے کہ میں ضرور قیامت برپا کروں گا اور اس دن نیکوں کو پوری پوری جزا ملے گی اور نافرمانوں کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس کا وعدہ سچا ہے۔ لیکن آخرت کے منکر نہیں مانتے۔ 2۔ قیامت اس لیے بھی برپا کی جائے گی تاکہ اس دن لوگوں کے انبیاء ( علیہ السلام) اور صالحین کے ساتھ اور دیگر اختلافات کا فیصلہ کیا جائے۔ اگر حق اور باطل کے درمیان فیصلہ نہ ہو تو انبیاء اور صالحین اپنے حق سے محروم رہ جائیں گے اور ظالم دنیا میں مزیدظلم کرتے رہیں گے۔ یہاں حق سے مراد ” اللہ کی فرمانبردای ہے“۔ (یونس : 106 ،لقمان :13) 3۔ قیامت کا آنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ اس کا انکار کرنے والے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ جو کچھ انبیاء ( علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے وہ سچ ہے اور جو کچھ ہم کہتے اور کرتے تھے وہ سراسر جھوٹ تھا۔ 4۔ منکرین قیامت کا یہ عقیدہ جھوٹا ثابت کیا جائے گا کہ مرنے کے بعد ان کی بوسیدہ ہڈیوں کو اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا۔ اس کی تردید کے لیے یہاں صرف اتنا کہنا مناسب سمجھا گیا۔ اس بنیاد پر تمہارا آخرت کا انکار کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور اس کی قوت و سطوت کا انکار کرنا ہے۔ تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اپنے حضور پیش کرنا اس کے لیے کیونکر مشکل ہوسکتا ہے حالانکہ جب کسی کام کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ صرف ” کن“ کہتا ہے یعنی ہوجا اور وہ کام اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور فرمان کے عین مطابق پورا ہوجاتا ہے۔ مسائل: 1۔ کفار قسمیں اٹھا، اٹھا کر لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ 2۔ قیامت برپا کرنا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے برپا ہونے کے دلائل : 1۔ اللہ کا قیامت قائم کرنے کا وعدہ برحق ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (النحل :38) 2۔ قیامت قریب ہے۔ (الانبیاء :1) 3۔ قیامت کے دن اللہ پوچھے گا آج کس کی بادشاہی ہے؟ (المومن :16) 4۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کے بارے میں بتائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔ (المجادلۃ:7) 5۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار :19) 6۔ اے لوگو! اللہ سے ڈر جاؤ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت ہی سخت ہوگا۔ (الحج :1)