قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ
یقیناً ان لوگوں نے تدبیریں کیں جو ان سے پہلے تھے تو اللہ ان کی عمارت کو بنیادوں سے آیا۔ پس ان پر ان کے اوپر سے چھت گر پڑی اور ان پر وہاں سے عذاب آیا کہ وہ سوچتے نہ تھے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گمراہوں اور ان کے راہنماؤں کا دنیا میں انجام۔ ” لفظ مکر“ کے بارے میں کئی بار وضاحت ہوچکی ہے کہ اگر اس لفظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی تدبیر اور منصوبہ بندی ہوتا ہے۔ اگر مکر کی نسبت کسی برے کام اور شخص کی طرف ہو تو پھر اس کا معنی فریب، دھوکا، سازش اور شرارت ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں، کفار اور مشرکین کی شروع سے یہ عادت رہی ہے کہ وہ لوگوں کو حق سے دور رکھنے اور اپنا ہمنوا بنانے کے لیے مختلف قسم کی سازشیں، شرارتیں اور ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں غلط قسم کے الزامات اور مختلف قسم کا پروپیگنڈہ ہر دور میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور داعیانِ حق کے خلاف کیا گیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے حق کو اس طرح غالب کرتا ہے جس سے حق کے منکروں کے بنے ہوئے جال، الزامات اور ان کے جھوٹے پروپیگنڈے کی بنیاد پر کھڑی کی گئیں عمارتیں ریزہ ریزہ ہو کر دھڑام جاتی ہیں۔ گویا کہ ان کی بنائی ہوئی عمارتیں اور محلات انہی کے اوپر آگرتے ہیں۔ بالآخر اللہ کے عذاب نے انہیں ایسی حالت میں آلیا جس کے بارے میں وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کا اچانک عذاب آنے کی چند مثالیں : 1۔ مجرموں پر عذاب اس طرف سے آیا جدھر سے ان کو خیال بھی نہ تھا۔ (النحل :26) 2۔ قوم ثمود کو زلزلے نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (الاعراف :78) 3۔ قوم لوط کو سورج نکلنے سے پہلے پہلے ایک آواز نے آلیا۔ (الحجر :73) 4۔ اگر کفار کے پاس اچانک اللہ کا عذاب آئے تو وہ اسے ٹال نہ سکیں گے۔ (الانبیاء :40) 5۔ کفار کے پاس اچانک عذاب آئے گا اور وہ شعور بھی نہیں رکھیں گے۔ (الشعراء :202)