وَإِذَا قِيلَ لَهُم مَّاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے تمھارے رب نے کیا چیز اتاری ہے؟ تو کہتے ہیں پہلے لوگوں کی بے اصل کہانیاں ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 24 سے 25) ربط کلام : منکرین آخرت حقیقت میں متکبر ہوتے ہیں لہٰذا تکبر کرنے کا نتیجہ اور اس کا انجام۔ یہ تکبر کا ہی نتیجہ ہے کہ کفار سے جب یہ کہا جاتا کہ سوچو تمہارے رب نے کیا کیا ارشادات نازل فرمائے ہیں۔ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ہم سے پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ اس طرح نہ صرف خود حق کا انکار کرتے ہیں بلکہ اس پروپیگنڈہ کے ذریعے دوسرے لوگوں کو بھی حق سے دور رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہوگا کہ قیامت کے دن یہ اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کے علاوہ ان کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہوں گے جن کو انھوں نے گمراہ کیا ہوگا۔ کتنا ہی برا بوجھ ہے جسے اٹھائے ہوئے ہوں گے اور ہمیشہ کے لیے جہنم میں ذلیل ہوں گے۔ (الفرقان :69) جہاں تک اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (النجم :38) اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ لیکن جو لوگ دوسروں کی گمراہی کا سبب بنیں گے کیونکہ ان کا دوہرا گناہ ہوگا اس لیے انہیں بوجھ بھی دوگنا اٹھانا پڑے گا۔ اس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن مجرموں کو ذلیل کرنے کے لیے ان کے گناہوں کو حجم کی شکل دے کر ان کے کندھوں پر لادا جائے گا تاکہ وہ ایک دوسرے کی نظروں میں ذلیل ہوتے رہیں۔ پہلے زمانے میں کچھ لوگ اس وجہ سے گمراہ ہوئے کہ نیکی اور بدی کا وزن نہیں ہوسکتا مگر آج سائنس نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ انسان کے جسم کا ٹمپریچر ماپا اور ہوا کا وزن کیا جا سکتا ہے۔ کیا جس رب نے انسان کو یہ عقل اور صلاحیت دی ہے وہ اس کے اچھے اور برے اعمال کا وزن نہیں کرسکتا؟ یقیناً لوگوں کے اعمال کو تولا جائے گا۔ (أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَامَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) حِینَ أَنْزَلَ اللَّہُ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الأَقْرَبِینَ﴾ قَالَ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْکَلِمَۃً نَحْوَہَا۔۔ وَیَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِینِی مَا شِئْتِ مِنْ مَالِی، لاَ أُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللَّہِ شَیْئًا)[ رواہ البخاری : باب ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الأَقْرَبِین۔۔﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں آپ نے فرمایا اے قریش کی جماعت یا اس طرح کہ دوسرے کلمات ادا فرمائے۔۔ اور کہا اے فاطمہ بنت محمد دنیا کا جو مال مجھ سے لینا چاہتی ہے لے لے میں اللہ کے ہاں تجھے کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکوں گا۔“ مسائل: 1۔ قرآن مجید کو کفار سابقہ امم کے قصے کہانیاں کہتے ہیں۔ 2۔ قیامت والے دن اپنا اور جس کو گمراہ کیا ہوگا اس کا بھی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن نیکی اور بدی کا وزن ہوگا : 1۔ قیامت کے دن اپنے اعمال کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔ (النحل :25) 2۔ قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور ہوگا۔ (الاعراف :8) 3۔ قیامت کے دن ہم عدل کا میزان قائم کریں گے۔ (الانبیاء :47) 4۔ جس کی نیکیوں کا بوجھ زیادہ ہوگا وہ عیش و عشرت میں ہوگا۔ (المومنون :102) 5۔ جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی وہ عیش وعشرت میں ہوگا۔ (القارعۃ: 6۔7) 6۔ جن کی نیکیاں کم ہوں گی یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں رکھا ہوگا۔ (المومنون :103) 7۔ جس کی نیکیوں کا وزن کم ہوا اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے۔ (القارعۃ: 8۔9) 8۔ قیامت کے دن چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی اس کے سامنے آجائے گی اور چھوٹی سے چھوٹی برائی بھی۔ (الزلزال : 7۔8)