أَتَىٰ أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اللہ کا حکم آگیا، سو اس کے جلد آنے کا مطالبہ نہ کرو، وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : سورۃ الحجر کا اختتام ان آیات پر ہوا ہے کہ مشرکین سے مزید بحث و تکرار کرنے کی بجائے اعراض کیجئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے ان کی کٹ حجتیاں اور استہزا کے مقابلے میں کافی ہے یہ لوگ جو ہرزہ سرائی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس سے آپ کا دل پسیجتا ہے۔ بس آپ اپنے رب کو یاد کرتے رہیں اور کفار کو تنبیہ کریں کہ جس بات کی تم جلدی کرتے ہو وہ آن پہنچی ہے۔ رسول معظم (ﷺ) مشرکین کو اللہ تعالیٰ کی توحید سمجھاتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم نے اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کیے رکھا تو اس کا عذاب تمہیں آلے گا۔ لیکن مشرکین آپ (ﷺ) کا یہ کہہ کر مذاق اڑاتے کہ سال پر سال گزر رہے ہیں، تیری دھمکیوں کے باوجود اب تک ہم پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوا۔ اس دلیری میں وہ اس قدر آگے بڑھ گئے کہ ایک دن بیت اللہ میں جمع ہو کر اس کے غلاف کو کھینچتے ہوئے یہ الفاظ کہتے ہیں کہ اے اللہ اگر یہ دین حق اور یہ رسول تیری طرف سے ہے تو پھر ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہمیں کسی ہولناک عذاب سے دوچار کر دے جس کا یہ جواب دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس لیے عذاب میں مبتلا نہیں کر رہا کہ اس کا رسول ان میں موجود ہے اور ان پر عذاب نہ آنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں مسلمان موجود ہیں جو استغفار کرتے رہتے ہیں۔ (الانفال : 32۔33) لیکن اب وقت آگیا تھا کہ ان کی نافرمانیوں کے بدلے میں ان پر عذاب نازل کیا جائے۔ چنانچہ اعلان ہوتا ہے اپنے آپ سے باہر ہونے اور جلدی کرنے کی ضرورت نہیں بس اللہ کا حکم آہی پہنچا ہے۔ جب اللہ کا عذاب آئے گا تو اس کے سامنے تم اور تمہارے معبودان باطل یکسر بے بس ہوجائیں گے۔ اب تک اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل نہیں ہوا تو اس کا معنیٰ یہ نہ سمجھو کہ تمہارے اور تمہارے معبودوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کمزور ہے۔ وہ ہر کمزوری سے مبرا، اور ہر قسم کی شراکت سے پاک اور تمہارے باطل عقیدہ اور تصورات سے کہیں اعلیٰ اور ارفع ہے۔ اس کے کمال کو کوئی زوال نہیں اور اس کی ذات میں کوئی نقص نہیں وہ ہمیشہ سے اعلیٰ اور صاحب کمال ہے اور رہے گا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) أَیُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّہِ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلَّہِ نِدًّا وَّہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ إِنَّ ذٰلِکَ لَعَظِیْمٌ، قُلْتُ ثُمَّ أَیُّ قَالَ وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ تَخَافُ أَنْ یَّطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیُّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ حَلِیْلَۃَ جَارِکَ ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر باب قَوْلُہُ تَعَالَی﴿فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّہِ أَنْدَادًا وَّأَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ﴾] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (ﷺ) سے سوال کیا کہ اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کونسا ہے آپ نے فرمایا تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا ہے۔ اس کے بعد کونسا ہے آپ نے فرمایا کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائے گی۔ میں نے عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ شریکوں کی شراکت سے پاک اور مبرا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمزوری اور شرک سے پاک ہے : 1۔ اللہ ان کے شرک سے پاک و برتر ہے۔ (النحل :1) 2۔ اللہ نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا۔ اللہ شریکوں سے بلند و بالا ہے۔ (النمل :3) 3۔ اللہ غائب اور حاضر کو جاننے والا ہے اللہ شریکوں کی شراکت سے بلند ہے۔ (المومنون :92) 4۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ اللہ ان کے شرک سے بالا ہے۔ (النمل :63) 5۔ اللہ نے تمہیں پیدا کیا، رزق دیا، تمہیں مارے گا اور تمہیں زندہ کرے گاکیا تمہارے شرکا میں سے بھی کوئی ہے جو یہ کام کرسکے؟ اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔ (الروم :40) 6۔ قیامت کے دن آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ اللہ لوگوں کے شرک سے پاک و برتر ہے۔ (الزمر :67)