بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف سورۃ النحل : سورۃ النحل مکی دور کے آخر میں نازل ہوئی۔ اس کے 16رکوع اور 128آیات ہیں۔ سورۃ کا نام، آیت 68سے لیا گیا ہے۔ النحل کا معنی ہے ” شہد کی مکھی“ مکہ اور اس کے گرد و نواح کے لوگ نبی اکرم (ﷺ) سے اکثر یہ مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے ہو وہ ہم پر نازل کیوں نہیں ہوتا ؟ سورۃ کی ابتداء میں کفار کو چیلنج دیا گیا ہے کہ جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو وہ عنقریب تم پر نازل ہونے والا ہے۔ اس وارننگ کے بعد ہر انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ تجھے اللہ تعالیٰ نے ایک نطفہ سے پیدا کیا ہے لیکن انسان اپنے خالق کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ باور کروایا ہے کہ قیامت کے دن کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کی طرف رسول مبعوث فرمایا اور ہر نبی کا پیغام یہ تھا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور شیطان کی پیروی سے بچ جاؤ۔ کچھ لوگ ہدایت پا گئے اور باقی پر گمراہی مسلط ہوگئی۔ گمراہوں کا انجام دیکھنا چاہو تو دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ اس پر گواہ ہیں۔ اس کے بعد ہجرت کا دنیا اور آخرت میں صلہ ذکر کیا گیا ہے۔ ساتویں رکوع کی ابتداء میں یہ ارشاد فرمایا کہ زمین و آسمان میں دو الٰہ نہیں ہیں۔ الٰہ صرف ایک ہی ہے۔ اس لیے صرف ایک ہی سے ڈرو۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے ظلم کی وجہ سے انہیں فی الفور پکڑنا چاہے تو انسان تو درکنار زمین پر کوئی چوپایہ بھی باقی نہ رہے۔ پھر شرک کی حقیقت سمجھاتے ہوئے دو قسم کے آدمیوں کی مثال دی گئی ہے۔ اس خطاب کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ہر امت پر اس کا پیغمبر شہادت دے گا اور نبی آخر الزماں (ﷺ) اپنی امت پر گواہ ہوں گے۔ اٹھارہویں رکوع کے آغاز میں عدل و انصاف احسان اور رشتہ داروں کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا، برائی، بے حیائی اور ہر قسم کی سرکشی اور نافرمانی سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ لوگو ! اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کی پاسداری کرو۔ تمھارا کردار اس عورت کی طرح نہیں ہونا چاہیے جو شام کے وقت اپنے ہاتھوں سے کا تے ہوئے سوت کو ریزہ ریزہ کردیتی ہے، پھر قرآن مجید کی تلاوت کے آداب بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو پہلے اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھ لیا کرو۔ اس سورۃ مبارکہ کا اختتام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات مبارکہ کے تذکرے کے ساتھ کیا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے رب کے نہایت ہی تابع فرماں اور اس کی اطاعت میں سراپا اخلاص ہونے کی وجہ سے مشرکوں کے ساتھ ان کا ہرگز تعلق نہ تھا وہ۔ اے پیغمبر (ﷺ) آپ کی طرف بھی ہم نے یہی وحی بھیجی ہے کہ آپ بھی پوری یکسوئی کے ساتھ ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کو اپناتے ہوئے مشرکوں سے بے پروا ہوجائیں