وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ بے شک تیرا سینہ اس سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 97 سے 99) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے آپ کا دفاع کرنے کے ساتھ تسلی دی ہے۔ کفار کو انتباہ کرنے اور آپ کے دفاع کی ذمہ داری لینے کے بعد آپ کو مزید تسلی دینے کی خاطر ارشاد ہوتا ہے اے رسول (ﷺ) ! ہم آپ کے حالات اور کیفیت کو بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ کفار کے طعن و تشنیع اور استہزا سے آپ کے دل کو غم اور تکلیف پہنچتی ہے۔ جب بھی آپ غم اور تکلیف محسوس کریں تو مشرکین کے طعن و تشنیع اور استہزا کی طرف توجہ کرنے کے بجائے آپ اپنے رب کی حمد بیان کریں اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجائیں اور اپنے رب کی آخری دم تک عبادت کرتے رہیں۔ یہاں عبادت کے لیے ” الیقین“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس سے اکثر مفسرین نے موت مراد لی ہے۔ انسان کو اپنی موت تک اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری کرنا ہے۔ اسی کے پیش نظر مومنوں کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے اے صاحب ایمان لوگو! ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یہاں تک کہ تمہیں موت بھی مسلمان ہونے کی حیثیت سے آئے۔ (آل عمران :102) لیکن اس کے مفہوم میں یہ بھی گنجائش نکلتی ہے کہ ” الیقین“ سے مراد عبادت میں وہ کیفیت اور اطمینان ہے۔ جس سے عبادت گزار کی طبیعت میں سکون اور دل میں اطمینان پیدا ہوجائے۔ کیونکہ ! دل اللہ کے ذکر سے ہی قرار پاتے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) اَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) جَالِسٌ فِیْ نَاحِیَۃِ الْمَسْجِدِ فَصَلّٰی ثُمَّ جَآءَ فَسَلَّمَ عَلَیْہِ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَعَلَیْکَ السَّلَامُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَاِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ فَصَلّٰی ثُمَّ جَآءَ فَسَلَّمَ فَقَالَ وَعَلَیْکَ السَّلاَمُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَاِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ فَقَالَ فِی الثَّالِثَۃِ اَوْ فِی الَّتِیْ بَعْدَھَا عَلِّمْنِیی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ اِذَا قُمْتَ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاَسْبِغِ الْوُضُوْٓءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ فَکَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَیَسَّرَ مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ رَاکِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَسْتَوِِیَ قَائِمًآ ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا وَّفِیْ رِوَایَۃٍ ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَسْتَوِیَ قَآئِمًا ثُمَّ افْعَلْ ذَالِکَ فِیْ صَلٰوتِکَ کُلِّھَا) [ رواہ البخاری : باب من رد فقال و علیکم السلام] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا رسول محترم (ﷺ) مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے اس نے جلدی سے نماز پڑھی اور آکر آپ (ﷺ) کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپ نے اسے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا پیچھے ہٹ کر دوبارہ نماز پڑھو کیونکہ آپ نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے واپس پلٹ کر نماز پڑھی اور پھر آکر سلام عرض کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا۔ جاکر پھر نماز پڑھو یقینًاتیری نماز ادا نہیں ہوئی۔ اس طرح وہ تیسری یا چوتھی دفعہ نماز پڑھنے کے بعدآیا۔ آپ (ﷺ) نے وہی ارشاد فرمایا تب وہ عرض کرتا ہے کہ اے اللہ کے رسول! مجھے نماز ادا کرنے کا طریقہ سمجھائیں۔ آپ (ﷺ) فرماتے ہیں جب تم نماز کا ارادہ کرو تو اچھی طرح وضو کرو۔ قبلہ رخ کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہو پھر قرآن کی تلاوت کرو جتنی تم آسانی کے ساتھ کرسکتے ہو۔ پھر اطمینان کے ساتھ رکوع کرو، رکوع کے بعد سر اٹھا کر اطمینان کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ، پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو‘ سجدہ کے بعداطمینان کے ساتھ بیٹھو اب دوسرا سجدہ اطمینان کے ساتھ کرو۔ پھر دو سجدوں کے بعد اطمینان اور سکون کے ساتھ بیٹھ کر اٹھو۔ ایک روایت میں آپ (ﷺ) کے یہ الفاظ موجود ہیں اس کے بعد پھر اطمینان کے ساتھ قیام کرو۔ اس طرح اپنی نماز کو مکمل کرو۔“ مسائل: 1۔ نبی اکرم (ﷺ) کفار کی باتیں سن کر دل میں تنگی محسوس کرتے تھے۔ 2۔ انسان کو آخری دم تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے سے دل کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی تسبیح کے فوائد : 1۔ اے لوگو! آخری دم تک اللہ کی عبادت کرو۔ (الحجر :99) 2۔ جن و انس کو اللہ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ (الذاریات :56) 3۔ اپنے رب کی حمد و تسبیح بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ (الحجر :98) 4۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ میں تمھیں عذاب الیم سے ڈراتا ہوں۔ (ھود :26) 5۔ اللہ کا ذکر دلوں کے لیے سکون و اطمینان کا باعث ہے۔ (الرعد :28)