سورة الحجر - آیت 73

فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پس انھیں چیخ نے روشنی ہوتے ہی پکڑ لیا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 73 سے 77) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بدمعاشوں کی بدمعاشی کا منظر پیش کرنے کے بعد ان کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ ملائکہ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو پہلے ہی بتلا دیا تھا کہ صبح کے وقت آپ کی قوم کو اللہ کا عذاب آ لے گا۔ جونہی عذاب کی گھڑی آ پہنچی تو حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) نے پوری بستی کو اٹھایا اور اس قدر اونچا لے جا کر اسے الٹ کر زمین پر دے مارا کہ بستی والوں کے چیخنے کی آوازیں آسمان کے ملائکہ تک نے سنیں۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ سورج نکلنے کے قریب ہی وہ پکڑے گئے اور ہم نے اس بستی کے اوپرکے حصہ کو نیچے کردیا اور پھر ان پر پتھر برسائے گئے جن پر مخصوص نشان لگے ہوئے تھے۔ (الذاریات :34) ارشاد ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں صاحب بصیرت لوگوں کے لیے بڑی عبرت ہے اور یہ علاقہ شاہراہ عام پر واقع ہے۔ قوم لوط کی بستیاں مدینہ سے مدین جاتے ہوئے راستے میں پائی جاتی ہیں اور آج بھی ان کے کھنڈرات عبرت کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔[ رواہ البخاری : کتاب الانبیاء باب قولہٖ تعالیٰ ﴿ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ﴾] دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اس کا کل رقبہ 351مربع میل ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ پیمائش کی گئی ہے۔ یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے اور اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل بن چکی ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحر روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصرکے محقق عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب سے پہلے اس جگہ پر کوئی سمندر نہیں تھا۔ جب اللہ کے عذاب کی وجہ سے اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔“ 1۔ اس کے پانی کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب پچیس فیصد ہے جب کہ دنیا کے تمام سمندروں میں نمکیات کا تناسب چار سے چھ فیصد شمار کیا گیا ہے۔ 2۔ اس کے کنارے نہ کوئی درخت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جانور زندہ رہ سکتا ہے حتی کہ سیلاب کے موقع پر دریائے اردن سے آنے والی مچھلیاں اس میں داخل ہوتے ہی تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہیں۔ اہل عرب اس کو بحیرہ لوط بھی کہتے ہیں۔ اس صورت حال کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ مسائل: 1۔ قوم لوط کو آواز نے پکڑ لیا۔ 2۔ قوم لوط کی بستی کو الٹ دیا گیا۔ 3۔ قوم لوط پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ 4۔ اہل بصیرت کے لئے اس واقعہ میں نشانیاں ہیں۔ 5۔ قوم لوط کی بستی ایک آباد راستہ پر ہے۔ تفسیر بالقرآن : قوم لوط کے واقعہ کی تفسیر : 1۔ ہم نے اس بستی کو الٹ کر ان پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر :74) 2۔ ان کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے سے ہی بدکاریاں کیا کرتے تھے۔ (ھود :78) 3۔ لوط نے کہا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود :80) 4۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے خاص نشان لگے ہوئے۔ (ھود :82)