سورة الحجر - آیت 45

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 45 سے 48) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرے مخلص بندوں پر شیطان کا تسلط نہیں ہو سکتا۔ اب مخلص بندوں کے اجرو ثواب کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ مخلص بندوں کی پہلی اور بنیادی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کی نافرمانیوں سے بچتے ہیں۔ ان کے اجرو ثواب کا یوں تذکرہ فرمایا کہ یہ ایسی جنت میں داخل کئے جائیں گے جس میں چشمے اور آبشاریں جاری ہوں گی۔ وہ اس میں امن و سلامتی کے ساتھ داخل ہوں گے۔ جس میں انہیں نہ کوئی مشقت اٹھانا پڑے گی اور نہ ہی انہیں جنت سے نکالے جانے کا خطرہ ہوگا۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان ہونے کے ناطے سے اگر ان کی باہمی رنجش ہوگی تو اللہ ان کے دلوں سے عداوت و کدورت نکال دے گا۔ جنتی اخوت و بھائی چارے کی فضا میں ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہو کر بیٹھا اور ٹہلا کریں گے۔ اسی آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سیدنا حضرت علی (رض) نے فرمایا تھا کہ میں اللہ کی رحمت سے امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے اور معاویہ کے درمیان ہونے والی رنجش کو دور فرمائے گا۔ ہم جنت میں بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کے سامنے بیٹھا کریں گے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَقَام الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوْ جَلَسَ فِیْٓ اَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا قَالُوْا اَفلَاَ نُبَشِّرُ بِہِ النَّاسَ قَالَ اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ مائَۃَ دَرَجَۃٍ اَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاہِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَابَیْنَ دَرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ فَاِذَا سَاَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَاِنَّہٗ اَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَاَعْلَی الْجَنَّۃِ وَفَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ اَنْھَارُ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : جو شخص اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان لایا، نماز قائم کی‘ رمضان کے روزے رکھے‘ اللہ تعالیٰ نے ذمّہ لے لیا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ خواہ اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا یا اپنی آبادی میں رہا جہاں وہ پیدا ہوا۔ صحابۂ کرام (رض) نے عرض کیا‘ اے اللہ کے رسول! اجازت ہو تو ہم لوگوں کو یہ خوش خبری سنائیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا‘ بلاشبہ جنت کی سومنزلیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں کے لیے تیار کیا ہے‘ جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر دو منزلوں کے درمیان زمین اور آسمان جتنا فاصلہ ہے۔ جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس کا سوال کرو۔ کیونکہ وہ اعلیٰ وافضل جنت ہے۔ اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن چہرہ ہوں گے۔ جو ان کے بعد داخل ہوں گے یہ آسمان پر بہت تیز چمکنے والے ستارے کی طرح ہوں گے تمام جنتیوں کے دل ایک جیسے ہوں گے نہ تو ان کے درمیان باہمی اختلاف ہوگا اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھیں گے۔ ان میں سے ہر شخص کے لیے حوروں میں سے دو بیویاں ہوں گی۔ حسن کی وجہ سے جن کی پنڈ لیوں کا گودا‘ ہڈی اور گوشت کے پیچھے دکھائی دے گا۔ اہل جنت صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کریں گے۔ نہ وہ بیمار ہوں گے اور نہ ہی پیشاب کریں گے‘ نہ رفع حا جت کریں گے اور نہ ہی تھوکیں گے اور نہ ہی ناک سے رطوبت بہائیں گے۔ ان کے برتن سونے چاندی کے ہوں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی۔ انگیٹھیوں کا ایندھن عود ہندی ہوگا اور ان کا پسینہ کستوری کی طرح ہوگا۔ سب کا اخلاق ایک جیسا ہوگا نیز وہ سب شکل و صورت میں اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کی طرح ہوں گے۔ آدم کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا۔“ [ رواہ البخاری : باب خَلْقِ آدَمَ صَلَوَات اللّٰہِ عَلَیْہِ وَذُرِّیَّتِہِ ] تفسیر بالقرآن : جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : 1۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : 47۔48) 2۔ جنت کی مثال جس کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد :35) 3۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ : 28تا30) 4۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ:23) 5۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ:31)