وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ
اور ہم نے ہواؤں کو بار آور بناکر بھیجا، پھر ہم نے آسمان سے پانی اتارا، پس ہم نے تمھیں وہ پلایا اور تم ہرگز اس کا ذخیرہ کرنے والے نہیں۔
فہم القرآن : (آیت 22 سے 25) ربط کلام : انسان کا رزق اور ہر چیز کی ضروریات اللہ تعالیٰ ہی پوری کرتا ہے۔ رزق کے اسباب میں پانی اور ہوا کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ اس لیے پانی اور ہواکا ذکر ضروری سمجھا۔ انسان اور حیوانات کا رزق، نباتات کی ضروریات اللہ تعالیٰ ہی پوری کرتا ہے۔ اس کے پاس کائنات کا نظام چلانے کے لیے ہر چیز کے لامحدود خزانے موجود ہیں۔ جہاں تک رزق کا معاملہ ہے اس میں زمین کا کردار بنیادی اور مرکزی ہے۔ کیونکہ انسان کی تخلیق میں بنیادی میٹریل مٹی ہے اور اس کی خوراک کا انتظام بھی مٹی یعنی زمین سے ہی کیا گیا ہے۔ اس میں بنیادی عوامل ہوا اور پانی ہیں ان کے ساتھ سورج کی حرارت اور چاند کی روشنی بھی معاون ہے۔ مگر بنیادی کردار ہوا اور پانی کا ہے۔ ہوا کے بغیر جاندار چیزوں کا چند لمحوں کے بعد مرنا یقینی ہے اور پانی کے بغیر انسان حیوان اور نباتات کا زندہ رہنا ناممکن ہے۔ سورۃ الانبیاء، آیت : 30میں فرمایا کہ ہم نے ہر چیز کی زندگی کا انحصار پانی پر رکھا ہے۔ انسان، جنات، حیوانات اور نباتات کو پانی فراہم کرنے کے تین ذرائع ہیں۔ 1۔ زمین کے اندر پانی کا بے انتہا ذخیرہ ہے۔ جو دریاؤں، چشموں اور سمندر کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ جغرافیہ دانوں کا اندازہ ہے کہ دنیا میں تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی ہے جس میں پہاڑ بھی شامل ہیں۔ سمندر کے پانی کی کثیر مقدار پینے کے قابل نہیں جس وجہ سے زمین کے اندر کا پانی کنوؤں اور دوسرے ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ اگر پانی کی سطح گہری کردی جائے تو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جو پانی مہیا کرسکے۔ (الملک :30) 2۔ اللہ تعالیٰ بعض علاقوں میں ہوا کا نقطۂ انجماد اس قدر زیادہ کرتا اور نیچے لے جاتا ہے کہ پہاڑ کئی کئی فٹ برف سے ڈھانپ دیے جاتے ہیں۔ پانی کی مقدار میں مزید اضافہ کرنے کے لیے سردیوں میں برف باری کا سلسلہ قائم فرمایا ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کا ایسا نظام ہے۔ جو امیر سے امیر حکومت بھی نہیں کرسکتی، پھر اللہ کی شان دیکھیں یہ پانی پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمع کیا گیا ہے جس میں کسی غلاظت کے شامل ہونے کا اندیشہ نہیں۔ اس کو سورج کی تپش سے پگھلا کر ندی نالوں اور دریاؤں کی شکل میں دور دراز علاقوں تک پہنچانے کابندو بست فرمایا ہے۔ 3۔ پانی کی کمی کو پورا کرنے اور اسے دور دور تک پہنچانے کے لیے ہواؤں اور سورج کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ سورج کی تپش سے اٹھنے والے بخارات کو ہوائیں مختلف گیسوں کے ساتھ فلٹرائز کر کے فضا میں اتنا اونچا لے جاتی ہیں کہ بخارات بادلوں کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوائیں بادلوں کو دھکیل کر اس علاقے میں پانی برساتی ہیں جہاں برسنے کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ جس سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ اسی سے موت و حیات کا استدلال پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے آخرت کے منکر انسانو! جو مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ وہی مالک تمہاری موت اور زندگی کا اختیار رکھتا ہے تم سب نے ایک دن مر جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا وارث ہے اور ہوگا۔ وہ تم سے پہلے لوگوں کو بھی جانتا ہے اور تمہارے بعد آنے والے لوگوں کا بھی اسے علم ہے۔ تم آخرت کا اقرار کرو یا انکار بالآخر اللہ تعالیٰ تم سب کو اپنے ہاں جمع فرمائے گا۔ اگر آج تم اس کی ذات اور احکام کا انکار کرتے ہو اور وہ تمہیں پکڑتا نہیں تو یہ نہ سمجھنا کہ تم اس کے علم اور اختیارات سے باہر ہو اس نے اپنی حکمت کے تحت تمہیں مہلت دے رکھی ہے۔ وہ اپنے احکام اور فیصلوں کی حکمت جاننے کے ساتھ ہر بات اور چیز کا علم رکھتا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ہی پانی سے لدی ہوئی ہواؤں کو بھیجتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آسمانوں سے بارش برستی ہوتی ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی سب کو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہی ہر چیز کا وارث ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ فوت ہونے اور دنیا میں آنے والوں کو جانتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کو جمع کرے گا۔ 6۔ اللہ تعالیٰ حکمت اور سب کچھ جاننے والا ہے۔